آٹھ نومبر 2016 کی نصف شب سے ملک بھر میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، اس کے کچھ دنوں بعد تک ملک میں افرا تفری کا ماحول اور بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں دیکھی گئی تھیں، بعد میں آر بی آئی نے 500 اور 2000 روپے کے نئے نوٹ جاری کیے، لیکن سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کا یہ بلند نظریے والا فیصلہ کتنا مؤثر رہا؟
8 نومبر کی تاریخ ملکی معیشت کی تاریخ میں ایک خاص تاریخ کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے، یہ وہ دن ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی نے رات کے آٹھ بجے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔نوٹ بندی کا جواز پیش کرتے ہوئے حکومت نے کہا کہ 'اس نے ملک میں کالے دھن اور جعلی کرنسی کے مسئلے کو ختم کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔'تفصیلات سے قبل ایک بار اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ ملک میں نوٹ بندی کتنی بار ہوئی ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ سنہ 2016 میں ہوئی نوٹ بندی تاریخی ہے، اس سے قبل بھی ملک میں نوٹ بندی کی کئی مثالیں ہیں۔
سنہ 1946 میں ریزرو بینک آف انڈیا نے ایک ہزار اور 10 ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا، حالانکہ تب بینک نے نوٹ بندی کی تھی لیکن سال 2016 میں اس کے برعکس مرکز نے اس کا اعلان کیا تھا۔
سنہ 1954 میں حکومت نے 1000 اور 10 ہزار روپے کے نئے نوٹ جاری کیے۔
سنہ 1978 میں مرارجی دیسائی کی حکومت نے 500، 1000 اور 10 ہزار کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا، تب بھی مودی حکومت کی طرح دیسائی حکومت نے بھی نوٹ بندی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے یہ قدم غیر قانونی لین دین اور سماج مخالف سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اٹھایا ہے۔
جعلی نوتوں پر کتنا شکنجہ کسا جا سکا؟
نوٹ بندی ملک میں وسیع مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا گیا، جس میں بلیک منی کو معیشت سے باہر نکالنا، لوگوں کی بے حساب دولت کو حساب میں لا کر اس کا محاسبہ کرنا، شدت پسندی کو روکنا شامل ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا کو فروغ دینا اور بھارت کو کیش لیس بنانا جیسے مقاصد شامل تھے۔
ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) 2019-20 کی سالانہ رپورٹ میں آر بی آئی نے کہا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں سب سے زیادہ مالیت والے 2000 روپے کے نوٹوں کا رجحان تیزی سے گرا ہے۔