دہلی: شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات 2020 کے دوران 53 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سینکڑوں لوگوں کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ فسادات کے دوران ان کے کاروبار تباہ ہوگئے حالانکہ انہیں حکومت کی طرف سے امداد بھی ملی لیکن فسادات کے الزام میں گرفتار افراد کے اہل خانہ آج بھی اس کرب سے گزر رہے ہیں۔ دہلی کے معروف تاجر سلیم خان بھی ان میں سے ایک ہیں جن پر دہلی پولیس نے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں جیل میں بند کردیا۔ سلیم خان کو جیل میں رہتے ہوئے تین برس سے ذیادہ کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن ان کے کیس میں اب تک کوئی بھی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو پائی ہے۔
Delhi Riots 2022 دہلی فسادات کے بعد گرفتار سلیم خان کے اہل خانہ کسمپرسی کے شکار، بیٹی نے سنائی آپ بیتی
دہلی فسادات 2020 کے دوران مشہور تاجر سلیم خان کو پولیس نے گرفتار کرکے یو اے پی اے کے تحت جیل میں قید کردیا ہے جس کے سبب ان کا خاندان کسمپرسی کا شکار ہوگیا ہے۔ معاشی بحراب کے سبب سلیم خان کے بچوں کو تعلیم بھی ترک کرنی پڑی۔ اس موقعے پر سلیم خان کی بیٹی صائمہ خان نے ای ٹی وی بھارت کو پوری داستان سنائی۔ Businessman Salim Khan's family facing difficulties
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے سلیم خان کی بیٹی صائمہ خان سے بات کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کی زندگی ان تین برسوں میں کتنی تبدیل ہو گئی ہے۔ صائمہ بتاتی ہیں کہ دہلی فسادات سے قبل ان کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ ان کے والد سلیم خان کاروبار کے سلسلہ میں بیرون ممالک کا سفر کرتے رہتے تھے۔ ان کا خاندان معاشی لحاظ سے کافی مستحکم تھا لیکن 11 مارچ 2020 میں جب ان کے والد کو پولیس نے گرفتار کیا تو آہستہ آہستہ گھر کے معاشی حالات خراب ہونے لگے، کاروباہ تباہ ہونے لگا۔ اس دوران ان کے بھائی کو تعلیم ترک کرنی پڑی، صائمہ خود میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں لیکن معاشی بحران کے سبب انہیں بھی فیس معافی کی درخواست دینی پڑی۔
سلیم خان نے اپنی زندگی کی مکمل داستان جیل میں بیٹھ کر قلم بند کی ہے، جسے ان کی بیٹی صائمہ کتاب کی شکل میں شائع کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں یہاں بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی کیونکہ کوئی بھی پبلشنگ ہاوس ان کی اس داستان کو شائع کرنے کے لیے رضا مند نہیں ہے۔ صائمہ بتاتی ہیں کہ سال 2015 میں ان کے والد کے پاس لندن کی شہریت کی پیشکش تھی لیکن انہوں نے اپنے وطن عزیز میں رہنے کو ترجیح دی کیونکہ وہ اپنے ملک کے لیے وفادار تھے لیکن آج وہ سوچتے ہیں تو انہیں اپنے اس فیصلے پر افسوس ہوتا ہے۔ سلیم خان نے جیل میں رہتے ہوئے ہی عدالت کی کارروائی میں تیزی لانے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی، وزیر اعلی اروند کیجریوال، چیف جسٹس آف انڈیا، لیفٹیننٹ گورنر سمیت متعدد وزراء کو خط ارسال کیا تھا، انہیں امید تھی کہ ان کی درخواست کو سنجیدگی سے لیا جائے گا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا جس سے نہ صرف سلیم خان کی زندگی بلکہ ان کے اہل خانہ کی زندگی پر بھی گہرا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔