شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 53 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق ان میں 40 مسلمان تھے وہیں 75 فیصد سے زائد مکانات اور دکانیں بھی مسلمان کی لوٹی اور جلائی گئی تھی. پولیس کے ذریعے جاری ان اعداد شمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فساد مسلمانوں کے خلاف تھا جبکہ پولیس اس کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی مانتی ہے. البتہ عدالت میں پولیس اسے ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار متعدد مسلم نوجوان عدالت سے ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں کیونکہ پولیس عدالت میں ان کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔ ایسے ہی ایک شخص سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے بات کی جنہیں چاند باغ کے رہنے والے شاہد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا.
چاند محمد کو چاند باغ سے مارچ 2020 میں شاہد کے قتل میں گرفتار کیا گیا تھا شروعات میں چاند محمد کو معلوم ہی نہیں تھا کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے جب معلوم ہوا تو انہیں جیل بھیجا جا چکا تھا.
چاند محمد بتاتے ہیں کہ جب شاہد کا قتل ہوا تب وہ چاند باغ میں نہیں تھے۔ اس لیے نہ تو ان کی کوئی تصویر پولیس کے پاس ہے اور نہ ہی ان کی کوئی ویڈیو یا لوکیشن انہیں محض مسلمان ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔
چاند محمد کا کہنا ہے کہ وہ کیوں کسی مسلمان کا قتل کریں گے جبکہ پولیس کے مطابق یہ فساد ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تھا۔