کانگریس نے حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے 5 ریاستی اسمبلی انتخابات میں مکمل طور پر نئی حکمت عملی کا انتخاب کیا تھا۔ خاص طور پر آسام اور کیرالہ دونوں ریاستوں میں اس کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج تھا، راہل اور پرینکا گاندھیدونوں نے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا لیکن وہ زمینی سطح پر اثر ڈالنے میں ناکام رہے۔
- کانگریس دور دور تک موجود نہیں
اگر ہم دیگر تین ریاستوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے باوجود کانگریس مغربی بنگال میں اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی ہے۔ کانگریس پڈوچیری میں بھی انتخابی جنگ ہار گئی۔ امید کی واحد کرن تمل ناڈو سے آئی لیکن وہ بھی ڈی ایم کے کی وجہ سے ممکن ہوا جہاں اس نے ریاست میں زبردست فتح حاصل کی ہے۔
- اپوزیشن جماعتوں کا مضبوط قائد
پارٹی واضح طور پر ریاستوں میں اپنا وجود کھو رہی ہے۔ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی قیادت کرنے کے لئے اپنی اصل طاقت سے بھی محروم ہے۔ اس وقت علاقائی پارٹیاں مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں۔ نتائج کے بعد ممتا بنرجی کو اپوزیشن جماعتوں کے مضبوط قائد چہرہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو بی جے پی کو سخت ٹکر دے سکتی ہے۔
ان نتائج پر کانگریس پارٹی کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس طرح نہ کیا گیا تو یہ ان کی داخلی خلیج کو اور بھی گہرا کرسکتی ہے۔ 23 قائدین جو پہلے ہی پارٹی کے کام کاج سے مطمئن نہیں تھے اور تنظیمی تبدیلی کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایک بار پھر قیادت پر سوال کرسکتے ہیں۔ دریں اثنا اس گروپ کے علاوہ باہر بھی کچھ ایسے رہنما موجود ہیں جو پارٹی کے کام سے خوش نہیں ہیں۔
- کانگریس کو اپنے زوال کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا
سابق وزیر قانون ڈاکٹر اشونی کمار نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واضح طور پر کانگریس کو اپنے زوال کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ہر سطح پر نظریاتی وابستگیوں اور باہمی تعاون سے متعلق روایات میں اپنے آپ کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔