کشمیر میں علیحدگی پسند سیاست کے سرپرست اور سخت گیر موقف رکھنے والے سابق حریت کانفرنس چیئرمین سید علی شاہ گیلانی یکم ستمبر 2021 کی رات سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ میں انتقال کرگئے جہاں وہ کئی برسوں سے نظر بند تھے۔ حکام نے ان کی رحلت پر ممکنہ عوامی ردعمل کے پیشِ نظر کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بندشیں عائد کیں اور مواصلاتی نظام جزوی طور پر بند کردیا۔
سید علی شاہ گیلانی نے ایک رکن اسمبلی سے لیکر سخت گیر علیحدگی پسند رہنما کا سفر کیسے طے کیا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سید علی گیلانی کی پیدائش 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کی وُلر جھیل میں واقع زُرمنز گاؤں میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے مزید تعلیم حاصل کی۔ گیلانی کا انتقال، 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں علیحدگی پسندوں کیلئے دوسرا بڑا المیہ تصور کیا جارہا ہے اور بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی یتیم ہوگئی ہے۔
گیلانی ہمیشہ علیحدگی پسند نہیں تھے۔ 1987 تک انہوں نے متعدد بار اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر 1972 اور 1977 کے اسمبلی انتخابات میں سوپور حلقے سے ممبر اسمبلی بنے جب کہ 1987 کے متنازعہ الیکشن میں وہ مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی میں پہنچے۔
انتخابی عمل میں گیلانی کی شرکت 1989 تک جاری رہی، جب کشمیر میں پاکستان کی پشت پناہی سے مسلح شورش کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس وقت احتجاجاً اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے بعد ہونے والے تمام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ عام رائے ہے کہ 1987 کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی تھیں، جو عسکریت پسندی کا موجب بنی۔
گیلانی 1993 میں علیحدگی پسند پلیٹ فارم کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیادی ایگزیکٹیو کونسل کے رکن بنے۔ میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں بننے والی حریت کانفرنس میں پیپلز کانفرنس کے عبدالغنی لون، اتحاد المسلمین کے مولوی عباس انصاری، لبریشن فرنٹ کے یاسین ملک اور مسلم کانفرنس کے عبدالغنی بھٹ بھی شامل تھے۔ تیئیس سیاسی اور سماجی تنظیموں پر مشتمل یہ اتحاد، کشمیر کے علیحدگی پسندوں کی پہچان بن گیا۔ بعد میں 1997 میں گیلانی اس اتحاد کے چیئرمین بن گئے۔
گیلانی نے تاہم حریت کانفرنس سے 2003 میں علیحدگی اختیار کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کے لیڈروں نے 2002 کے اسمبلی انتخابات کے دوران، جب وہ جیل میں بند تھے، الیکشن مخالف مہم نہیں چلائی۔ انہوں نے پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے الیکشن میں پراکسی امیدوار کھڑے کئے تھے۔
سجاد لون نے اگرچہ گیلانی کے الزامات کو اس وقت مسترد کیا تاہم بعد میں وہ مین اسٹریم سیاست میں باضابطہ طور پر شریک ہوئے اور کئی الیکشنز میں حصہ لیا۔ وہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے حلیف بن گئے اور ریاستی کابینہ میں بھی جگہ پائی۔
گیلانی نے حریت قیادت کی جانب سے جواب نہ ملنے کے بعد 'تحریک حریت' کے نام سے اپنی جماعت قائم کی اور ایک متوازی حریت دھڑہ قائم کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے حریت کانفرنس میں تطہیری عمل کیا ہے اور وہی اصلی حریت کانفرنس کے سربراہ ہیں۔ اکتوبر 2013 میں وہ چوتھی بار حریت کانفرنس کے اپنے دھڑے کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
سید علی گیلانی بنیادی طور جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے۔ جماعت اسلامی، حریت کانفرنس میں ایک اکائی کے طور پر شامل تھی اور گیلانی، جماعت کے پارلیمانی ونگ کے سربراہ تھے۔ ماضی میں جماعت اسلامی الیکشن سیاست میں سرگرم تھی اور گیلانی کو اس میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے جانا جاتا ہے۔
گیلانی، تاحیات کشمیر کی سب سے بااثر سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے مخالف رہے اور تحریروں اور تقریروں میں وہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے سیاسی فیصلوں کو نشانہ بناتے رہے۔ نیشنل کانفرنس نے بھی گیلانی کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔