آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر اور معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق کا آج ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں لکھنؤ میں سپرد خاک کردیاگیا۔ ان کا گزشتہ دیر شب لکھنؤ کے ایک اسپتال میں 81 برس کی عمر میں انتقال ہوگیاتھا۔
مولانا کلب صادق 22 جون 1939 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، انہوں نے اے ایم یو سے ماسٹر ڈگری اور لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی ادب میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔
مولانا کلب صادق کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ڈاکٹر کلب صادق نہ صرف حکومت کے فیصلوں پر اپنی بیباک رائے کے اظہار کے لیے جانے جاتے تھے بلکہ حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کی پرزور مخالفت بھی کیا کرتے تھے۔
مولانا ایک سیکولر شخص تھے اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلموں کے درمیان بھی ان کے اثرو رسوخ پائیدار تھے۔ ایک موقعے سے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ تب ہوگا جب وہ اپنے ہندو بچوں کی خدمت کریں گے۔
ایک بار خطاب کے دوران مولانا نے کہا تھا کہ 'مجھے مسلمانوں سے شکایت ہے لیکن ہندوؤں سے کبھی شکایت نہیں ہوئی کیونکہ ہندوؤں نے مجھے ہمیشہ عزت اور پیار دیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اندر قوم وملت کے تئیں خاصی ہمدردی تھی۔
ان کی شکایت تھی کہ 'مسلمانوں سے پوچھیے دین کیا ہے؟ کہیں گے کہ نماز پڑھنا، روزے رکھنا، حج کرنا لیکن یہ دین نہیں ہے۔ مولانا کلب صادق نے 2016 میں خطاب میں کہا تھا کہ 'مسلمانوں کو خود جینے کا سلیقہ نہیں پتہ اور نوجوانوں کو مذہب کا راستہ دکھاتے ہیں، انہیں پہلے خود کو آئیڈیل بنانا ہوگا جس سے مسلم نوجوان ان کی راہ پر چلیں۔ آج مسلمانوں کو مذہب سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔