چیف آف ڈیفینس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت نے حال ہی میں اعلان کیا کہ بھارت سائبر حملوں سے بچنے کے لئے فائر وال بنانے اور ری کوری سسٹم قائم کرنے جیسے اسٹریٹجیک اقدامات کرتے ہوئے چین میں بیٹھے ہیکرز کا توڑ کرے گا۔ اُنہوں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سائیبر سیٖفٹی کے معاملے میں پیچھے ہے، تاہم سائبر حملوں کا جارحانہ جواب دینے کا عزم ضرور رکھتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ چین کے پاس موجود سائبر صلاحتیں عیاں ہیں اور بھارت کو سائبر وار فیر کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ڈیفینس سائبر ایجنسی (ڈی سی اے) کو سائبر سکیورٹی کے معاملے کو دیکھنے کے ٹاسک دئے گئے ہیں۔
جب دو ملکوں کے درمیان تنازع کا ماحول موجود ہو تو پے درپے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے بارے میں بروقت پتہ چلتا ہے لیکن کچھ واقعات کے بارے میں تاخیر سے معلومات حاصل ہوتی ہے۔ گزشتہ سال کے سرحدی تنازعے کے تناظر میں چین خاموشی سے بھارت کے بنیادی ڈھانچے کو مسلسل حملوں کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ اس نوعیت کے یکے بعد دیگرے حملوں نے انٹیلی جینس یونٹس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اگر کسی ملک کے بارے میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ سائبر حملوں میں ملوث ہے تو بین الاقوامی سطح پر اس کی امیج کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک سائبر وار فیر میں ملوث نہیں ہوتا ہے۔ لیکن چین سے کئے جانے والے حملے ریڈ ایکو، ٹونٹو ٹیم، سٹون پانڈا اور ایمیسری پانڈا جیسے ہیکر گروپوں کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ان گروپوں کی پشت پناہی چین کی سرکار کررہی ہے۔
انفراسٹکچر پر حملے
بجلی اور ٹرانسپورٹ کا نظام کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی ان شعبوں میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بجلی کی تقسیم کاری کے لئے لوڈ ڈسپیچ سینٹروں کا ایک کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ریڈ ایکو نامی حملہ آور چینی گروپ نے ان سینٹروں کے سرور میں گھس پیٹھ کرکے اسے شیڈو پیڈ نامی وائرس سے متاثر کردیا۔ متعلقہ وزارت نے کہا ہے کہ اس حملے کو بروقت محسوس کیا گیا اور احتیاطی اقدامات کئے گئے اور کسی بھی اہم انفارمیشن کو خطرے سے لاحق نہیں ہونے دیا گیا۔ تاہم اس حملے نے ہمارے سکیورٹی نظام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردئے ہیں۔
بظاہر کسی بھی اعلیٰ سطحی ریاستی بینکنگ، انشورنس، طب، تعلیم، ٹرانسپورٹ یا بجلی سے متعلق ادارے کے پاس مناسب سکیورٹی انتظامات نہیں ہیں۔ روزمرہ کے استعمال کے لئے زیر استعمال سافٹ ویئرز اور فائر والز میں موجود خامیوں کی وجہ سے ہیکرز کےلئے اُنہیں نقصان پہنچانا آسان ہوگیا ہے۔ اُنہیں صرف سروسز کا آئی پی ایڈریس چاہیے ہوتا ہے۔ مارچ میں اطلاعات آئی ہے کہ ریڈ ایکو نے انڈین پورٹ نیٹ ورک میں بھی گھس پیٹھ کی ہے۔
حکومت ہند نے 118 چینی ایپس پر پابندی لگادی ہے، جو ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچارہی تھیں۔ صورتحال مزید خراب کرتے ہوئے چین نے مزید سائبر حملے کئے۔ ذہنوا ڈاٹا انفارمیشن ٹیکنالوجی، جو چین کے شنزین میں قائم ہے، نے ہزاروں سرکردہ بھارتی سیاستدانوں، صحافیوں، ججوں، شہریوں، ماہرینِ تعلیم اور کھلاڑیوں کا ڈاٹا بیس تیار کرلیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پوری دُنیا کووِڈ 19 سے جوجھ رہی ہے، طبی شعبے اور ویکیسن کمپنیوں پر بڑے پیمانے پر حملے ہورہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سارے حملے چین یا روس میں بیٹھ کر کئے جارہے ہیں۔ چینی حملہ آور گروپ سٹون پانڈا نے بار بار بھارت میں ویکیسن تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں بھارت بائیو ٹیک اور سیرم انسٹی چیوٹ پر سائبر حملے کئے۔ ہیکرز نے آندھرا پردیش روڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن، آئی آر سی ٹی سی، ٹاٹا موٹرز اور سینٹر فار ریلوے انفارمیشن سسٹیم کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ہیکرز نے ان اداروں کے ملازمین کے میلز میں بھی گھس پیٹھ کی ہے۔
سائیبر سیکورٹی فریم ورک کی تجدید کی ضرورت
چین تیزی سے دُنیا کا سپر پاور بننے کی کوشش کررہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بھارت اپنے اداروں کو روس، پاکستان، چین اور کوریا سے ہونے والے سائبر حملوں سے بچانے کےلئے پیشگی اقدامات نہیں کرسکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کو محفوظ بنایا جائے اور سائبر حملوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں۔ سائبر سکیورٹی اور متعلقہ نظام کےلئے بجٹ میں ایک علاحدہ حصہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملازمین کی ٹیکنیکل صلاحیت بڑھانے کےلئے تربیتی پروگرام محدود کرنے کے بجائے حکومت کو اُنہیں سائبر سکیورٹی سے متعلق بنیادی جانکاری فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بھارت کو صرف چین کو سرحد پر قابو نہیں کرنا ہے بلکہ اسکے سائبر وار سے بھی نبرد آزما ہونا ہے۔