نئی دہلی: تبدیلی مذہب کرانے کے الزام میں گرفتار عرفان خواجہ خان کی ضمانت پرر ہائی کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران دو رکنی بینچ نے ضمانت کی عرضی کو سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے اتر پردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا۔Conversion Case
جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق دو رکنی بینچ کے جسٹس انیرودھ بوس اور جسٹس وکرام ناتھ کو سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بتایا کہ ملزم ایک سال سے زائد عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے، ملزم کو اتر پردیش حکومت کی جانب سے بنائے گئے متنازعہ قانون اتر پردیش پروہبیشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلیجن ایکٹ کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا اور گرفتاری کے بعد سے ہی ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی)قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ملزم عرفان کے دفاع میں پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو مزیدبتایا کہ عرفان خان مرکزی حکومت کے زیر انصرام منسٹری آف ومن اینڈ چلڈرن ڈیولپمنٹ میں بطور ترجمان کام کرتا ہے نیز یو پی اے ٹی ایس نے ملزم پر جو الزام لگایا ہے کہ ہ وہ گونگے بچوں کو عمر گوتم کے کہنے پر اسلام قبول کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ وہ عمر گوتم کو جانتے بھی نہیں ہیں اور نوئیڈا ڈیف سوسائٹی سے ان کا تعلق بھی نہیں۔
ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کے دلائل کی سماعت کے بعد عدالت ضمانت عرضداشت کو سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے یو پی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔آج دوران کارروائی عدالت میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہرش پراشر، ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ کامران جاوید، ایڈوکیٹ مجاہد احمد ودیگر موجود تھے۔