لکھنؤ:اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے گلف سٹی میں واقع لولو مال کا حالیہ دنوں میں افتتاح ہوا تھا، جس میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی شامل ہوئے تھے۔ یہ مال افتتاح ہونے کے بعد سرخیوں میں رہا کہ شمالی بھارت کے سب بڑے شاپنگ مال کے ایم ڈی یوسف علی نام کے مسلم شخص ہیں لیکن نماز پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اب تنازعہ Controversy Over Namaz at Lulu Mall in Lucknow طول پکڑتا جا رہا ہے۔
لولو مال میں کسی بھی مذہبی عبادت یا رسومات پر پابندی اطلاعات کے مطابق عید الاضحی کے ایام میں نصف درجن سے زائد لوگوں نے مال میں نماز ادا کی تھی، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور سخت گیر ہندو تنظیموں نے سخت اعتراض کرتے ہوئے سندر کانڈ کا پاٹھ اور ہنومان چالیسا پڑھنے کا انتباہ دیا تھا۔Controversy Over Namaz at Lulu Mall
مال انتظامیہ نے لکھنؤ گلف سٹی پولیس اسٹیشن میں تحریر دے کر ایف ائی آر درج کرائی، جس میں کہا کہ جو لوگ مال کے اندر نماز پڑھ رہے تھے وہ مال کے ملازم نہیں تھے لہذا شکایت درج کر ان پر قانونی کاروائی کی جائے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، تفتیش جاری ہے، آئی پی سی دفعات کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ ہندو مہاسبھا نے مسلسل مطالبہ کیا ہے کہ ان کی مذہبی رسومات کو بھی مال میں ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔ انتظامیہ نے پولیس اہلکار اور سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے تاکہ ناخوشگوار صورتحال سامنے نہ آئے۔ Controversy Over Namaz at Lulu Mall
یہ بھی پڑھیں؛ Gurugram Friday Prayer Controversy: نمازجمعہ کی ادائیگی پر پھر ہندو تنظیموں کی مخالفت
لکھنؤ میں واقع لولو مال کے حوالے سے ایودھیا میں سادھو سنتوں کا بھی بیان سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مال میں 80 فیصد مسلم نوجوان اور 20 فیصد ہندو لڑکیوں کو ملازمت دی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لو جہاد کا اڈہ Hindu Group Makes 'Love Jihad' Claimبنایا جارہا ہے، تاہم یہ دعویٰ حقیقت سے پرے ہے۔ مال انتظامہ کے مطابق کسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر ملازمت نہیں دی گئی ہے بلکہ اس کی اہلیت اور قابلیت کے اعتبار سے ہی ملازمت دی گئی ہے اور اس طرح کے جو بھی دعوے کیے جا رہے ہیں وہ غلط ہیں۔ مال انتظامیہ نے ایک آج ایک بورڈ لگایا ہے جس میں لکھا ہے کہ مال میں کسی بھی مذہبی عبادت یا رسومات کو ادا نہ کی جائے۔ Controversy Over Namaz at Lulu Mall