پٹنہ : ملک میں ریاست بہار معاشی و اقتصادی طور پر کمزور سمجھا جاتا ہے، یہاں کی آبادی میں 17 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے جس میں تعلیمی و تجارتی شرح محض چند فیصد ہے۔ اقلیتوں کو روزگار سے جوڑنے اور خود کفیل بنانے کے مقصد سے نتیش حکومت نے 2012 میں اقلیتی روزگار منصوبے کا آغاز کیا تھا، اس منصوبہ کے تحت اقلیتی طبقے کے لوگوں کو روزگار شروع کرنے اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لئے 5 لاکھ روپے تک کا قرض فراہم کیا جاتا تھا، جس وقت یہ منصوبہ شروع ہوا تھا اس وقت اس کا بجٹ 25 کروڑ تھا جو رواں سال بڑھ کر 100 کروڑ ہو گیا ہے۔ اس منصوبہ کا فائدہ اقلیتی طبقہ کے ان لوگوں کو خاطر خواہ ہو رہا تھا جو معاشی طور پر کمزور ہیں، اس منصوبے کے بعد اقلیتی سماج میں بیداری آئی اور بڑی تعداد میں ہر سال لوگ اس سے فیضیاب ہونے لگے، لیکن نتیش حکومت نے جس جوش و خروش کے ساتھ اس اسکیم کا آغاز کیا تھا، اب وہ آخری سانسیں گن رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اسکیم کو ادیمی یوجنا( صنعتی منصوبہ) میں ضم کئے جانے کی بات ہو رہی ہے، اگر صنعتی منصوبہ میں اسے ضم کر دیا جاتا ہے تو اقلیتوں کے قرض میں گراوٹ آئے گی۔ اس موقع پر سماجی کارکن ایس ایم شرف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا یہ ایک شاندار منصوبہ تھا جس سے ہر سال دو سو سے ڈھائی سو تک اقلیتی سماج کے افراد کو فائدہ مل رہا تھا، اگر وزیر اعلیٰ اسے بند کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو انہیں اس پر دوبارہ سے غور کرنا چاہیے۔ اس منصوبہ کو بند کئے جانے کی خبر سے ملی تنظیموں میں بھی تشویش کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور انہوں نے متعلقہ افسران سے اس بارے میں تحقیق کی مگر انہیں کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا شبلی قاسمی نے کہا کہ اگر یہ منصوبہ بند ہوتا ہے تو اس کا نقصان پورے سماج کو ہوگا اور اقلیت سماج میں ایک غلط پیغام جائے گا۔