اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

زرعی قوانین:کسان احتجاج سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے تک ایک تفصیلی رپورٹ - سپریم کورٹ کی اس قوانین پرعارضی پابند

کسان مرکزی حکومت کی جانب سے منظور شدہ زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ 48 ویں دن سے احتجاج کر رہے ہیں۔ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے جدوجہد اورسپریم کورٹ کی اس قوانین پرعارضی پابندی تک تمام ضروری جانکاریوں پر ایک نظر۔

کسان احتجاج سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے تک ایک تفصیلی رپورٹ
کسان احتجاج سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے تک ایک تفصیلی رپورٹ

By

Published : Jan 13, 2021, 12:05 PM IST

5 جون 2020:مرکزی حکومت نے تین زرعی بل کو آرڈینسس کے طور پر نافذ کیا تھا۔

14 جون 2020: بھارتی کسان یونین نے اس آرڈیننس پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا۔

14 جون سے 30 جون:کسانوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس نئے زرعی اصلاحات سے متعلق جو نیا آرڈیننس پاس کیا ہے، اس سے مینیمم سپورٹ پرائس یعنی حکومت کی طرف سے ضمانت دی گئی ایم ایس پی بھی ختم ہوجائے گی اور ان سب کا فائدہ بڑی کمپنیوں کو حاصل ہوگا۔جس کے بعد پنجاب کے کسانوں نے مرحلہ وار طریقے سے کسان احتجاج شروع کیا۔

17 ستمبر 2020:بی جے پی کی دیرینہ حلیف شرونی اکالی دل سے اکلوتی وزیر اور فوڈ پروسیسنگ صنعت کی مرکزی وزیر ہرسمرت کور بادل نے اس متنازع بل کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

27 ستمبر 2020: کسانوں اور حزب اختلاف جماعتوں کے جاری احتجاج کے درمیان صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے بھارتی پارلیمنٹ میں منظور کردہ تینوں بلوں پر اپنی منظوری دے دی۔ جس کے بعد اس بل نے قانون کی شکل اختیار کرلی۔صدر جمہوریہ نے کسانوں کی پیداوار کی تجارت اور کامرس کی ترقی و سہولت سے متعلق بل 2020(پروموشن اینڈ فیلیسیٹیشن) ، کسانوں کوبا اختیار بنانے اور اُن کے تحفظ کےلئے قیمتوں کی یقین دہانی سے متعلق معاہدے (ایمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن) اور زرعی خدمات کا بل 2020 اور لازمی اشیاءکا ترمیمی بل 2020 ( اسسینشیل کموڈیٹیز (امینڈمنٹ) ایکٹ ) کو منظور کیا تھا۔

24 ستمبر 2020:نجاب میں کسانوں نے تین روزہ ‘ریل روکو’ احتجاج شروع کیا تھا۔ان ہنگامی صورتحال کے دوران فیروز پور ریلوے ڈویژن نے خصوصی ٹرینوں کی خدمات کو معطل کردیا تھا۔کسان مزدور سنگھرش کمیٹی نے 'ریل روکو'احتجاج کا اعلان کیا تھا، ریل روکو کال پر درجنوں کسان تنظیموں نے شامل ہوکر اپنی حصہ داری درج کروائی۔

3 نومبر 2020:کسان رہنماؤں نے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج میں شدت لاتے ہوئے ملک بھر میں چکہ جام کا اعلان کیا۔

25 نومبر 2020:پنجاب اور ہریانہ کے کسان یونین نے 'دہلی چلو' تحریک کا اعلان کیا،دہلی چلو کی کال پر درجنوں کسان تنظیمیں دہلی پہنچ کراپنی آواز بلند کررہی ہیں۔27 نومبر کو دہلی پولیس سے تصادم ہونے کے بعد کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔

28 نومبر 2020: ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹر ٹرالیوں اور دیگر گاڑیوں پر قومی دارالحکومت دہلی پہنچے ، انہوں نے قوانین کے خلاف ‘دہلی چلو’ تحریک سے حکومت کو اپنا جواب دیا۔

29 نومبر 2020:وزیر اعظم نریندر مودی نے من کی بات میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں کسانوں سے وعدے کرتی رہی"لیکن اب یہ وعدے پورے ہوچکے ہیں"۔انہوں نے مہاراشٹر کے اس کسان کی مثال پیش کی، جس کی تاجروں نے مکئی کے فصل کی ادائیگی تقریبا چار ماہ تک نہیں کی تھی۔

9 دسمبر 2020:کسان رہنماؤں نے تینوں متنازعہ قوانین میں ترمیم کرنے کی مرکزی حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا اور حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک قوانین کو مکمل طور پر منسوخ نہیں کیا جاتا ،اس وقت تک اس احتجاج میں مزید شدت لانے کا عزم ظاہر کیا۔

13 دسمبر 2020:راجستھان، ہریانہ، پنجاب، مہاراشٹر، گجرات اور متعدد دیگر ریاستوں سے دہلی جارہے سینکڑوں کسانوں کو ہریانہ پولیس نے راجستھان کے سرحد پر روکا گیا۔سماجی کارکن میدھا پاٹکر اور سوراج انڈیا کے قومی صدر یوگیندر یادو کی سربراہی میں اور سمیوکتا کسان مورچہ کے تحت سینکڑوں کسان دہلی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

4 جنوری 2021:24 نومبر سے شروع ہونے والے ’’ دہلی چلو ‘‘ تحریک کے بعد 4 جنوری تک کم از کم 60 کسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

11 جنوری 2021: سپریم کورٹ نے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کے مسئلے کا حل اب تک نہیں نکلنے پر مرکزی حکومت کے رویے پر شدید نکتہ چینی کی اور واضح لفظوں میں کہا کہ ہم اس معاملے کا تصفیہ چاہتے ہیں۔ آپ جس طرح معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے ہم خوش نہیں ہیں۔ اس کا جلد از جلد حل نکالا جانا چاہیے۔سپریم کورٹ نے ایک کمیٹی کی تشکیل کردی ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل شدہ کمیٹی میں اشوک گلاٹی، پرمود جوشی، ہرسمرت مان اور انل گھانوت کو شامل کیا گیا ہے۔

12 جنوری 2021:سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے تینوں قوانین پر عارضی پابندی عائد کردی۔ کورٹ نے تینوں قوانین پر اگلے احکامات تک پابندی عائد کردی ہے۔ مذاکرات کے لئے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ یہ حکم چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ، ایس اے بوبڈے اور جسٹس ای ایس بوپننا اور وی رامسوبرمیان کے تین ججوں پر مشتمل بینچ نے سنائی۔

For All Latest Updates

ABOUT THE AUTHOR

...view details