اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

تعلیمی شعبے پر وبا کے اثرات: بحران کی اس صورتحال میں حکومت کو موثر اقدامات کرنے ہوں گے

ماہرِ تعلیم اور پدم شری ایوارڈ یافتہ کرشنا کمار نے ایناڈو کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ملک میں کروڑوں بچے کووِڈ 19 کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ اگر اس صورتحال کا تدارک بطور ایمرجنسی نہیں کیا گیا تو بھارت کو اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ اگر اس صورتحال کی حساسیت کو نظر انداز کیا گیا تو ملک کی مجموعی تعلیمی ترقی کا کوئی معنی نہیں رہے گا۔

Padma Shri awardee Krishna Kumar
Padma Shri awardee Krishna Kumar

By

Published : Apr 27, 2021, 3:51 PM IST

کرشنا کمار ماضی میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف دہلی میں بطور پروفیسر آف ایجوکیشن بھی کام کرچکے ہیں۔

کرشنا کمار نے کہا ہے کہ اسکول چھوڑ چکے بچوں کو واپس اسکولوں میں داخل کرانے کے لیے مرکز کو ریاستی حکومتوں کو مالی معاونت فراہم کرنی چاہیے۔ تاہم اُنہوں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے قبل وبا کی وجہ سے اسکولی بچوں پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کے لیے ایک وسیع سروے کیا جانا چاہیے۔

ایناڈو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کرشنا کمار نے بھارت کے تعلیمی نظام سے متعلق کئی تجاویز دی ہیں۔ ذیل میں اس انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔

  • کورونا وبا کی دوسری لہر تعلیمی نظام کو کیسے متاثر کرے گی؟

لاکھوں مائیگرنٹ ورکرز(مہاجر مزدور) جنہوں نے وبا کی وجہ سے اپنے آبائی مقامات کی جانب ہجرت کی، کے بچوں کی تعلیم پر پڑھنے والے منفی اثرات کو جاننے کے لیے کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ میٹرو شہروں میں بھی بڑی تعداد میں بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ اگرچہ وبا کی پہلی لہر کے بعد مائیگرنٹ ورکرز واپس شہروں میں چلے آئے لیکن وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نہیں آئے۔ ملک بھر میں لاکھوں پرائیویٹ اسکولز بند ہوگئے۔ ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی تعلیمی نوعیت کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں، جو ان بند ہوجانے والے اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔

  • تعلیم پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ اس وقت اُنہیں کون سے اقدامات کرنے چاہئیں؟

سب سے پہلے وبا کی وجہ سے طلبا پر پڑھنے والے منفی اثرات جاننے کے لیے ایک وسیع سروے کیا جانا چاہیے اور اس ضمن میں با وثوق اعداد و شمار جمع کئے جانے چاہئیں۔ زمینی سطح کے اعداد و شمار کو جانے بغیر مجموعی منصوبے مرتب نہیں کئے جاسکتے۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے کے دوران مڈ ڈے میل اسکیم کس حد تک متاثر ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں اسکول جانے والے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوگئے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہےکہ بند پڑے پرائیویٹ اسکولوں کے طلبا کہاں ہیں۔ ان میں سے چند ایک سرکاری اسکولوں میں داخل ہوگئے ہوں گے لیکن ہمیں ان کے اعداد و شمار چاہیئں۔ اس کے بعد ہی ہم سرکاری اسکولوں میں اضافی اساتذہ کی اضافی تعداد کی تعیناتی کا تعین کرسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پسماندہ دیہات اور مائیگرنٹ ورکرز سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس بالخصوص لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا ہے اور اب وہ مزدوری کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے پاس ان کے اعداد و شمار میسر ہوں تو ہم ان بچوں کو واپس اسکولوں میں لانے کے لیے ایک منصوبہ مرتب کرکے اسے نافذ کرسکتے ہیں۔

  • سی بی ایس ای اور اسٹیٹ بورڈز نے امتحانات کو منسوخ یا ملتوی کردیا ہے۔ اس کے کیا نتائج ہوں گے؟

دسویں جماعت کے امتحانات کو منسوخ کرنے اور بارہویں کے امتحانات ملتوی کرنا قابلِ فہم ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ بارہویں جماعت کے طلباء نے پچھلے سال صرف آن لائن کلاسز لیے تھے۔اس لیے ان کے امتحانات بھی آن لائن لئے جاسکتے ہیں۔ یہ ناممکن نہیں ہے۔ اس وقت بھی کئی یونیورسٹیاں فرسٹ ایئر کا امتحان آن لائن لے رہی ہیں۔

  • امیر اور غریب کے درمیان تفریق بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے معیار تعلیم متاثر ہورہا ہے۔ اس تفریق کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟

یہ فرق وبا سے پہلے بھی موجود تھا لیکن اب یہ زیادہ عیاں ہوگیا ہے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تنخواہوں ( مینمم ویجز) کا مسئلہ حل کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو اُن پرائیویٹ اسکولوں کو مالی معانت فراہم کرنی چاہیے جو کم از کم تنخواہیں (مینمم ویجز) فراہم نہیں کر پارہے ہیں۔ اس طرح سے ان اسکولوں میں ہنر مند اساتذہ کی تعیناتی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سے حکومت کو اُن اسکولوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنی چاہیں، جو وبا کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں۔ اسے حکومت پر ایک بوجھ تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر سارے بچوں کو واپس اسکولوں میں داخل کرنا ہے تو اس کے نتیجے میں مناسب سہولیات اور انفراسٹرکچر فراہم کرنے کی قیمت چکانی ہوگی۔ افسر شاہی اڑچنوں کی وجہ سے اس کی عمل آوری میں تاخیر ہوسکتی ہیں لیکن ہمیں بہرحال معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

  • چار سال سے کم عمر کے بچے بھی ڈیجیٹل کلاسز لے رہے ہیں۔ اُن پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

بھارت کے علاوہ دُنیا کے کسی اور ملک میں کِنڈر گارڈن اور پری اسکولز کے بچوں کے لیے ای کلاسز کا انعقاد نہیں کیا جارہا ہے۔ اگر اسے بچوں کی نفسیات اور ڈیولپمنٹ کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اُن کی ذہنی صحت کے لیے اچھا ہے۔ بچوں کو اس طرح سے پڑھانے سے متلعق ہم صلاح و مشورے کے ذریعے طریقہ کار کا تعین کرسکتے ہیں۔ میرے خیال سے وبا کے اختتام پر ہمیں اُن چار سال کے بچوں، جو آن لائن کلاسز لے رہے ہیں، کی آنکھوں کی جانچ وغیرہ کی جانی چاہیے۔ اس عمر کے بچوں کو سختی کے ساتھ پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اُنہیں بنیادی چیزیں سکھائے جانے کے بعد کچھ حد تک چھوٹ دی جاسکتی ہے۔

  • وبا کی وجہ سے کروڑوں لوگ اپنا روزگار کھو چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کے کنبوں سے وابستہ بچوں کی تعلیم یقینی بنانے کے لیے حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

ایسے بچوں کو مالی امداد پہنچائی جانی چاہیے۔ ایسے پسماندہ بچوں جو تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک بار سروے ہوجائے تو حکومت یہ فیصلہ کرپائے گی کہ وہ کس طرح سے ان بچوں کی مدد کرے گی۔ حکومت کو اُن پرائیویٹ اسکولوں کی مالی مدد کرنی چاہیے جو لاک ڈاون کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔ یہ وقت پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اسکولوں میں امتیاز کرنے کا نہیں بلکہ طلباء کی تعلیم یقینی بنانے کو ترجیح دینے کا ہے۔ ایک بار صورتحال ٹھیک ہوجائے تو حکومت مالی معاونت کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ لے سکتی ہے۔ اس وقت ہم ایک شدید بحران سے دوچار ہیں۔ اس لیے ہمیں مطلوبہ شدت کے ساتھ ہی اس کا تدارک کرنا ہوگا۔ اگر ہم اسکول چھوڑنے والے بچوں کو واپس اسکولوں میں نہیں لا پائے تو بھارت کو اس کا خیمازہ بھگتنا پڑے گا کیونکہ اس طرح سے ملک تعلیمی حوالے سے تنزلی کی جانب جاسکتا ہے اس لیے موجودہ دور کو نیشنل ایجوکیشن ایمرجنسی کے بطور تسلیم کیا جانا چاہیے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details