گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا کے باشندے اردو صحافت کو لیکر کیا سوچ رکھتے ہیں؟ اس سوال کو لےکر ای ٹی وی بھارت اردو نے کچھ معززین سے بات کی ہے۔ مرزا غالب کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ابوحذیفہ کہتے ہیں کہ اردو صحافت کی تاریخ اور ماضی شاندار ہے۔ کل اور آج کی صحافت میں تبدیلی آئی ہے۔ ہمارے اسلاف کی جو صحافت تھی اس میں حکومت کے ظلم و تشدد اور آزادی کے ساتھ معاشرے کے استحکام و متحد ہونے کے ساتھ برائیوں کو ختم کرنے پر زور تھا تاہم آج کی صحافت صرف انفارمیشن تک سمٹ رہی ہے۔ A ceremony was held in Gaya, Bihar to mark the 200th anniversary of Urdu journalism۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت اردو زبان کی عوامی مقبولیت کسی ایک فرقے یا برادری تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ مقبولیت سبھی طبقے و برادری میں تھی ایسا نہیں ہے کہ اردو صحافت کا مستقبل آج خطرہ میں ہے بلکہ کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور قارئین کو جوڑنے کے لیے کچھ خاص پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پروفیسر احسان اللہ دانش کہتے ہیں کہ اردو صحافیوں نے انگریزی حکومت کے خلاف قلم سے جنگ کی۔ اس کی وجہ سے صحافیوں کو شہید بھی کیا گیا اردو صحافت کو کئی اعزاز حاصل ہیں اور یہ جنگ آزادی کی تحریک کی سب سے بڑی مددگار بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع گیا کی بھی ادب اور صحافت کے طور پر شناخت ہے۔ یہاں سے کئی بڑے رسائل اور اخبار نکلے آج اردو صحافت کمزور نہیں ہے طریقہ بدلا ہے اور اگر کمی ہے تو لوگوں کی دلچسپی کی کمی ہے۔ اردو کے فروغ میں صرف سرکار پر ہی منحصر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے اپنی کوشش ہونی چاہیے۔
مرادآباد: ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد کے موتی محل میں اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر جشن منایا گیا۔ اس جشن میں اردو دانشوروں نے شرکت کی اور اپنے خیالات پیش کیے۔ پروگرام کے بانی اور سینئر صحافی مرزا مرتضیٰ اقبال نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہر سال مرادآباد میں 27 مارچ کو جشن اردو صحافت منایا جاتا ہے۔ اس سال جشن اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہونے پر بھی پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام کا عنوان سید حامد شخصیت اور خدمات تھا۔ A ceremony was held in Muradabad on the completion of 200 years of Urdu journalism۔