کروڑوں لوگوں کے روزگار کا انحصار روزمرہ کے کام کاج پر ہے۔ غیر منظم سیکٹر سے وابستہ 45 کروڑ مزدور بدترین غریبی کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں فاقہ کشی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد کووِڈ سے مرنے والوں سے زیادہ ہونے والی ہیں۔ مرکزی سرکار کے جس اقدام کو بھکمری کا تدارک سمجھا جارہا ہے، وہ، اس کا یہ اعلان ہے کہ 80 کروڑ لوگوں کو مئی اور جون کے مہینوں میں فی کس 5 کلو اناج فراہم کیا جائے گا۔
تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک میں 10 کروڑ لوگ ایسے ہیں، جو عوامی تقسیم کاری کے ناکارہ نظام کے تحت اناج حاصل کرنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ اُن کے نام مردم شماری فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، جن کے فنگر پرنٹس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھس گئے ہیں۔ یہ لوگ بھی عوامی تقسیم کاری نظام کے ذریعے مراعاتی اناج حاصل کرنے سے قاصر ہونگے کیونکہ بائیو میٹر مشینیں ان کے فنگر پرنٹس کی شناخت نہیں کرپائیں گی۔
اگرچہ مرکز اس کے علاوہ غریبوں کو اضافی اناج فراہم کرنے کا وعدہ بھی کررہا ہے، لیکن وہ مائیگرنٹ مزدوروں کو اس طرح کی کوئی رعایت دینے سے انکار کررہا ہے۔ اس ضمن میں مرکزی سرکار کا استدلال ہے کہ چونکہ ملک گیر لاک ڈاؤن لاگو نہیں ہے، اس لئے مزدور اپنے آبائی دیہات واپس لوٹ کر اپنے راشن کارڈوں پر اناج حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ بات خوفناک ہے کہ حکومتیں مائیگرنٹ مزدوروں، جو ملک کے جی ڈی پی میں دس فیصد کنٹری بیوٹ ( شراکت ) کرتے ہیں، کے حوالے سے لاپرواہ ہیں۔ گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد جو مزدور اپنے گھروں کو چلے گئے تھے، اُن میں سے 39 فیصد کو دوبارہ اپنی نوکریاں واپس نہیں مل پائی تھیں۔ لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے اُن کی آمدنی میں 86 فیصد کی گراوٹ آگئی۔ مائیگرنٹ مزدوروں کو آج بھی اُن ہی مسائل کا سامنا ہے، جن سے اُنہیں گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ حکومت مائیگرنٹ مزدوروں کو اُن مشکلات سے نجات دلانے کے لئے کوئی احتیاطی اقدامات کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔