مرشدآباد ضلع مغربی بنگال کا وہ ضلع ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے۔
مرشدآباد یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے لئے تحریک میں شامل ہونے کی اردو داں طبقے سے اپیل مرشدآباد میں بنگالی مسلمانوں کی کثرت ہے لیکن ایک زمانے میں یہاں پر اردو زبان و ادب کی بھی بہت دھوم ہوا کرتی تھی۔
مرشدآباد نے اردو زبان کو کئی بڑے شعراء دیئے۔مرشدآباد جب تک بنگال کی دارلحکومت رہی اردو زبان و ادب کا بھی بول بالا رہا لیکن 1911 میں جب بنگال کی دارلحکومت کلکتہ کو بنا دیا گیا اور تمام دفاتر کو مرشدآباد سے کلکتہ منتقل کر دیا گیا تو مرشدآباد سے اردو زبان و ادب کا اثر بھی کم ہوتا گیا۔
آزادی کے 75 برس بعد مرشدآباد ضلع میں ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ریاستی حکومت نے مرشدآباد کے بہرام پور میں موجود کرشنا ناتھ کالج کو مرشدآباد یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔
جس کالج کو میں یونیورسٹی قائم کیا گیا ہے اسی کالج میں کبھی اردو اور فارسی کا شعبہ ہوا کرتا تھا۔
مرشدآباد یونیورسٹی میں اردو شعبہ کے قیام کے لئے مرشدآباد ضلع کے اردو داں طبقے کی جانب سے مرشدآباد یونیورسٹی میں اردو کے شعبہ کے قیام کے لئے محبان اردو کی طرف سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔جبکہ اس سلسلے میں کولکاتا کے اہل اردو کی جانب سے کوئی کوشش نہیں یو رہی ہے اور نہ ہی اب تک کولکاتا کے کسی اردو زبان ادب سے تعلق رکھنے والے اداروں کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی بیان سامنے آیا ہے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے مرشدآباد ضلع سے تعلق رکھنے والے بنگال کے معروف ڈرامہ نویس اصغر انیس سے بات کی جو کولکاتا کے ایک سرکاری اسکول میں معلم ہیں انہوں بتایا کہ مرشدآباد اردو زبان و ادب کا پہلا گہوارہ رہ چکا ہے۔
جب بنگال کی دارلحکومت کلکتہ منتقل ہو گئی تو مرشدآباد کی ادبی سرگرمیاں ماند پڑنے لگی اور ملک کے تقسیم کا ایک منفی اثر پڑا اور مرشدآباد کی زبان پر بھی اس کا منفی اثر پڑا۔ابھی وہاں چند ایک اردو میڈیم اسکول ہیں ان میں ایک ہائر سکنڈری اسکول نواب بہادر انسٹی ٹیوشن جو تاریخی اسکول ہے 1824 میں قسئم کی گئی تھی اور آج حکومت مغربی کا ایک سرکاری اسکول ہے پورے ضلع میں واحد اردو میڈیم سرکاری اسکول ہے۔
وہاں جب بہت کوششوں کے بعد نیتا جی سبھاش کالج کا قیام عمل میں آیا تو اس میں بھی اردو کا شعبہ نہیں تھا لہذا جب وہاں کے اردو داں طبقے نے کوشش کی تو اردو کا شعبہ قائم ہوا۔لیکن مرشدآباد میں کرشنا ناتھ کالج کو ہی مرشدآباد یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس میں اردو کا شعبہ نہیں ہے۔
مرشدآباد میں جو اردو بولنے والوں کا حلقہ ہے وہ اس بات سے ناراض ہیں۔اس سلسلے میں مرشدآباد کی ایک ادبی تنظیم بزم ارباب مرشدآباد اس سلسلے میں مہم چلا رہی ہے کہ مرشدآباد یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ قائم ہو اور بہت فعال ہے۔مرشدآباد یونیورسٹی کے انتظامیہ سے اس تنطیم کے وفد نے اس سلسلے میں ملاقات بھی کی ہے لیکن ابھی تک اردو کا شعبہ کو لیکر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔اس سلسلے مقامی لوگوں کی کوشش تو جاری ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کولکاتا کا اردو حلقہ اور اردو میڈیا اس بات کو سامنے لائے پورے مغربی بنگال کے لوگ اس کے لئے کوشش کریں۔
اگر مرشدآباد یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ قائم ہوتا ہے تو یہاں کے بچوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کو بھی فائدہ ہم چاہتے ہیں تمام لوگ ہمارا ساتھ دیں۔
مرشدآباد سے ہی تعلق رکھنے والے فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول کے اردو کے ٹیچر اطہر علی مرزا نے بتایا کہ ہمیں بہت خوشی ہوئی مرشدآباد میں اتنے برسوں کے بعد یونیورسٹی کا قیام عمل آیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اردو شعبہ قائم نہیں کیا گیا ہے جبکہ مرشدآباد اردو زبان و ادب کا ایک مرکز ہے۔یہاں پر اردو بولنے اور پڑھنے لکھنے والوں کی بڑی تعداد یے۔نیتاجی سبھاش سینٹینری کالج میں اردو کا شعبہ بھی ہے آنرس کرنے کے بعد طلبہ کو کلکتہ یونیورسٹی یا فاصلاتی تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے اگر مرشدآباد یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ قائم ہوتا ہے تو یہاں اردو داں طبقے کو آسانی ہوگی۔