اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

کیرالہ میں بی جے پی کی استقامت نتیجہ خیز

سینیئر صحافی و ای ٹی وی بھارت کے نیوز کوآرڈینیٹر پروین کے کمار کے مطابق بی جے پی پانچ ہزار آر ایس ایس شاکھاؤں کی موجودگی کے بل پر کیرالہ میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں 20 نشستوں پر بھر پور طریقے سے الیکشن لڑنے اور ان میں سے کم از کم پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اُمید کررہی ہے۔

کیرالہ میں بی جے پی کی استقامت نتیجہ خیز
کیرالہ میں بی جے پی کی استقامت نتیجہ خیز

By

Published : Feb 13, 2021, 8:24 AM IST

Updated : Feb 13, 2021, 9:49 AM IST

اُترپردیش کے بعد کیرالہ ملک کی دوسری ریاست ہے، جہاں آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں (یونٹس) قائم ہیں۔ تاہم فرق یہ ہے کہ اُتر پردیش میں بی جے پی نے حکومت سنبھال رکھی ہے لیکن کیرالہ میں اس کا محض ایک رُکنِ اسمبلی ہے، جو سال 2016ء میں منتخب ہوکر آیا۔ ہے۔ یہ اسمبلی نشست بی جے پی کو کیرلا کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار نصیب ہوئی ہے۔

اس سے صاف ظاہر ہے کیرالہ میں آر ایس ایس کی پانچ ہزار شاکھاوں کی موجودگی کے باجود بی جے پی کو اس کا کوئی انتخابی فائدہ نہیں ملا ہے۔ سال 2006ء تک تو بی جے پی اس ریاست میں کانگریس یا سی پی آئی ایم کے ووٹ بینک کو ذرا بھی متاثر نہیں کرپائی تھی۔

لیکن بی جے پی کی ثابت قدمی اب اس کے حق میں نتیجہ خیز نظر آنے لگی ہے۔ در اصل بی جے پی نے 1980ء میں اپنے قیام کے بعد یہ سبق اچھی طرح سیکھ لیا ہے کہ ایک مخالفانہ سیاسی ماحول میں اپنی جڑیں گاڑنے کےلئے استقامت امرت جیسی تاثیر رکھتی ہے۔

جب بھارتیہ جن سنگھ اور جنتا پارٹی کی افرادی قوت پر مشتمل بی جے پی قائم کی گئی تھی، اس وقت پارٹی نے ہندوتوا کے نظریات کے ساتھ ساتھ استقامت کی راہ اپنا ئی اور بالآخر ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں خود کو ایک قوت کی حیثیت سے پروان چڑھایا۔

کیرالہ ایک ریاست ہے، جس میں تفرقہ انگیز سیاست کے لئے قطعی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں وہ اصلاحاتی تحریکیں پروان چرھی ہیں، جو بعد میں پورے ملک پر حاوی ہوگئیں ہیں۔ اس ریاست میں زعفرانی رنگ میں ملبوس سادھو بھی دلتوں کی ترقی اور برہمنوں کی بالادستی کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اگر بی جے پی کو یہاں اپنی بنیادیں قائم کرنے میں کامیابی حاصل ہوپائی ہے تو اس کی وجوہات یہ کہ یہ پارٹی اپنی منزل پر نگاہیں جمائے رکھنے اور ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہنے کا ہنر جانتی ہے۔

اب بی جے پی پانچ ہزار آر ایس ایس شاکھاوں کی موجودگی کے بل پر کیرالہ میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں 20 نشستوں پر بھر پور طریقے سے الیکشن لڑنے اور ان میں سے کم از کم پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اُمید کررہی ہے۔

کیرلا میں بی جے پی کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ سال 2006ء کے بعد ہی اس پارٹی کو یہاں عوامی اجتماعات منعقد کی کامیابی حاصل ہو پائی ہے۔ اس سے قبل کیرالہ کے کل 140 اسمبلی حلقوں میں سے زیادہ تر میں بی جے پی کے ووٹروں کی تعداد مجموعی طور پر اوسطاً محض پانچ سے دس ہزار تھی۔ بھاجپا کو اس ریاست میں تیسرے نمبر پر (کانگریس اور سی پی ایم کے بعد) یا پھر لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) اور یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) سے پیچھے رہنے پر ہی اکتفا کرنا پڑتا تھا۔

ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بی جے پی اپنا فوکس کھو بیٹھتی اور اعتدال پسند کیرلا میں اپنی جیت کی اُمید چھوڑ دیتی۔ لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت کا کچھ الگ ہی منصوبہ تھا۔ اسے پتہ تھا کہ ایک بڑے رقبے کو حاصل کرنے کے لئے اس پر توجہ مرکوز کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے خطوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ پارٹی نے ان چھوٹے خطوں کی نشاندہی کرتے وقت نسل اور ذات برادری کے عوامل کو ملحوظ نظر رکھا۔ اس لئے پارٹی کی جانب سے سب سے پہلے کیرالہ کے دو انتخابی حلقوں، کلاسرا گاڈ کے منجھیش وارم اور تریوندرم کے نیومم میں اپنی جڑیں استوار کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔

منجھش وارم میں غالب اکثریت کنڈا برہمنوں کی ہے، جو تاریخی لحاظ سے ہندو توا نظریات کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے بی جے پی کو یہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد ملی۔ جبکہ منگلور کے تاجروں کے بہت زیادہ مالی تعاون کی وجہ سے پی جے پی کو کاسر گاڈ میں اپنے دیو قامت سیاسی مخالفین کے مد مقابل کھڑے ہونے میں مدد دی۔ حالانکہ پارٹی ابھی تک اس نشست پر کامیابی حاصل نہیں کرپائی ہے کیونکہ یہاں غالب مسلم آبادی کی حمایت انڈین یونین مسلم لیگ، جو کانگریس قیادت والے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کا ایک حصہ ہے، کو حاصل ہے۔

جہاں تک منجھش وارم کا تعلق ہے، یہاں بی جے پی انڈین یونین مسلم لیگ کے حق میں سی پی ایم کی کراس ووٹنگ کو اپنی ہار کا سبب بتاتی ہے۔

نیموم، جہاں آر ایس ایس کی جڑیں مضبوط ہیں اور اسے ہندو ووٹروں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے، میں بی جے پی کے پھیلاو میں مدد مل رہی ہے۔ حالانکہ اس نشست پر بی جے پی کے پہلے ریاستی صدر او راجا گوپال کو کئی بات ہار کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود بی جے پی نے اس حلقے کو نہیں چھوڑا۔ بالاخر او راجا گوپال، جو ہر انتخاب میں اس حلقے میں گھر گھر جاکر لوگوں سے ووٹ مانگتے تھے، جس پر اُنہیں سوشل میڈیا پر ’الیکش انکل‘ کے نام سے مذاق اڑایا جاتا تھا، نے سال 2016ء میں انتخابی فتح حاصل کی۔ اس طرح سے وہ کیرلا میں بی جے پی کے واحد رُکن اسمبلی بن گئے۔ اب بی جے پی نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کے رجحانات کا جائزہ لینے کے بعد کیرلا کے بیس اسمبلی حلقوں میں اپنی قمست آزمائی کا من بنالیا ہے۔ بی جے پی تریوندرم، کولام، پالک کاڈ، تھریسر اور کاسر گاڈ اضلاع میں واقع ان اسمبلی حلقوں میں سیاسی مخالفین کے ساتھ بھرپور نبرد آزمائی کی تیاری کررہی ہے۔

یہ سب کچھ بی جے پی کےلئے آسان نہیں تھا کیونکہ کیرلا میں اسکے نظریات کے حامیوں کی بہت کم تعداد ہے۔ یہاں تک کہ کیرلا کے دانشور طبقوں میں آر ایس ایس کے نظریہ ساز لیڈر ایم پی پرمیش واران کے سوا کسی بھی دوسرے بھاجپا یا آر ایس ایس کے لیڈر کا کوئی مان سمان نہیں تھا۔ جب کیرلا میں لینڈ ریفارمز کے موقعے پر سماجی اصلاحاتی تحریک، جو تمام طبقوں اور فرقوں کے لئے یکساں حقوق اور مندر میں ہر طبقے کے لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دیئے جانے کے مطالبے کو لیکر شروع کی گئی تھی، زور پکڑنے لگی تو ہندوتوا نظریات کے حامی اس تحریک کی مخالفت کرتے رہے۔

1980ء میں کیرلا میں جب بی جے پی کا پہلا تنظیمی یونٹ قائم کیا گیا تو اس کا پورا انحصار کیرلا میں موجود آر ایس ایس کے کندھوں پر تھا۔ لیکن 1990ء میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد مسلم انتہا پسندی کے اُبھر جانے اور مذہبی بنیادوں پر پولرائزیشن نے سیاسی لحاظ سے اعتدال پسند ہندوں کے ذہن میں عدم تحفظ کا احساس اُجاگر کرنے میں بی جے پی کی مدد کی اور اس نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا۔

تاہم جس طرح ملک کی کئی ریاستوں، جہاں کانگریس نے اپنی برتری کھو کر بی جے پی کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا، کی طرح کیرلا میں بھی اب کانگریس کے زوال نے بی جے پی کے عروج کی راہ ہموار کرلی ہے۔ کیرلا میں کانگریس پارٹی کے اگرچہ مسلم طبقوں اور مہاجر عیسائی کنبوں کے ساتھ گہرے روابط تھے، لیکن اس نے نرم ہندو توا کی راہ پھلانگ لی۔ پارٹی کے حامی، جن کے سیاسی نطریات کلچرل اور اخلاقی اقدار کی اساس پر قائم تھے، اب آسانی کے ساتھ بی جے پی کی طرف مائل ہوتے نظر آرہے ہیں۔

اس نئے ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں سی پی آئی ایم، جو اصلاحات میں یقین رکھتی ہے اور مذہب مخالف ہے، ہندو نواز کانگریس کا متبادل نہیں ہوسکتی ہے۔ بی جے پی اس کا فائدہ اٹھارہی ہے۔

مرکز میں بی جے پی کے ظہور اور کئی دیگر ریاستوں، جن میں پہلے کانگریس بحیثیت کلیدی قومی پارٹی کی حیثیت سے قائم تھی، میں اب بی جے پی کی برتری نے بھی پارٹی کو کیرلا میں اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کا حوصلہ بخشا ہے۔

بی جے پی کی پروپگنڈا تھنک ٹینک جو دلی میں رات دن کام کررہی ہے اور پارٹی کے ریاستی یونٹوں کے ساتھ تال میل بنائے رکھی ہے اور انہیں کنٹرول کررہی ہے، کی مدد سے اب پارٹی کیرلا میں اپنا وجود پھیلارہی ہے۔

بی جے پی، جس کے پاس اپنے سیاسی اہداف سے جڑی سوچ پھیلانے کے لئے ایک مضبوط آئی ٹی سیل ہے، سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی بیانیہ کو پر زور طریقے سے پھیلارہی ہے۔ اس وجہ سے بھی اسے کامیابی حاصل ہورہی ہے۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی نے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) اور یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) کے ساتھ طاقت آزمائی کی اور دیہی علاقوں میں اپنی بڑھتی ہوئی حمایت کا مظاہرہ کیا۔ آنے والے اسمبلی انتخابات کی تیاری کے حوالے سے بی جے پی دیہی علاقوں پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کررہی ہے۔

بی جے پی کو کیرالہ کی تمام 140 اسمبلی نشستوں پر لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) اور یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) کے ساتھ براہ راست ٹکر لینے کے قابل بننے میں مزید دس سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن دیر سویر ایسا ہو کر رہے گا۔

Last Updated : Feb 13, 2021, 9:49 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details