اکبر الہ آبادی کا پورا نام سید اکبر حسین رضوی ہے۔ اکبر تخلص تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدارس اور سرکاری اسکول میں ہوئی۔ اکبر نے 1872 میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880 تک وکالت کی، پھر جج کے منصب پر فائز ہوئے۔
گورنمنٹ نے انھیں 'خان بہادر' کے خطاب سے نوازا۔ انھیں 'لسان العصر' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
اکبر کا زمانہ 19ویں صدی کا درمیانی عہد تھا۔ جہاں انھوں نے محسوس کیا کہ مشرقی تہذیب پر مغربیت کا غلبہ ہوتا جارہا ہے۔
انھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ مسلمان مغربی تہذیب کو اپنا کر اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ انھوں نے مغربی تہذیب اور مغربی تعلیم پر اپنی شاعری کے ذریعہ تنقید کی اور لوگوں کو دم آخر تک مغربیت سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
- ہر عام و خاص کی زبان زد ہے۔
اکبر کی بیشتر شاعری طنز اور مزاح کے ارد گرد نظر آتی ہے۔ کلیات اکبر کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے غزل، نظم، رباعی قطعات اور دیگر متفرق اشعار پر مبنی اپنی طنز ومزاح اور سنجیدہ شاعری کو پیش کیا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
- ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
- بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے
- پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
- لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
- ناز کیا اس پہ جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
- مرد ہیں وہ جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
- رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
- کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
- ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
- کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
- قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
- رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
- طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
- دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
اکبر پر اکثر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ انگریزی تعلیم کے خلاف تھے۔ لیکن حقیقت میں ایسا دیکھنے کو ملتا نہیں، اکبر خود انگریزی داں تھے۔ وہ مغرب کی سائنسی ایجادات اور مغربی علوم کے خلاف نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان مشرقی اقدار کے ساتھ ساتھ مغرب کی قوموں کی طرح علم و ہنر سیکھیں۔
- اس ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ
- وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
- اٹھو تہذیب سیکھو صنعتیں سیکھو ہنر سیکھو
- بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو
- خواص خشک و تر سیکھو علوم بحر و بر سیکھو
- خدا کے واسطے اے نوجوانو ہوش میں آؤ
- دلوں میں اپنے غیرت کو جگہ دو ہوش میں آؤ
اس دور میں کالج کی تعلیم کا بنیادی مقصد ملازمت کا حصول تھا۔ لیکن اکبر چاہتے تھے کہ مسلمان صرف ملازمت تک محدود نہ رہے۔
اکبر الہ آبادی اور سرسید کے درمیان تنازع کی بحث بھی ملتی ہے۔ اکبر مشرقی تہذیب کے دلدادہ تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزوں جیسا طریقہ اپنائے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے سرسید کے نظریات سے اختلاف کیا۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم نسواں کے معاملے اکبر ان سے متفق نہیں تھے۔
اکبر اور سر سید کے درمیان نظریاتی اختلاف تھا نہ کہ ذاتی اختلاف۔ جس کو واضح کرتے ہوئے اکبر نے کہا بھی ہے کہ
- 'ہماری بس باتیں ہی باتیں ہیں "سید" کام کرتا ہے'
سنہ 1921 میں 9 ستمبر کو بخار کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی، وہ الہ آباد کے ہمت گنج علاقے میں سپرد خاک ہیں۔