ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد کے کانٹھ تھانے میں ایک ہفتے قبل لو جہاد کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا۔ بجنور کی رہائشی ایک ہندو خاتون کی والدہ کی تحریری شکایت کے بعد ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم اور اس کے بھائی کو گرفتار کر لیا جس کے بعد دونوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ اسی دوران اس خاتون کو ناری نکیتن بھیجا گیا جہاں پتہ چلا کہ بچی تین ماہ کی حاملہ ہے۔
13 دسمبر اتوار کی صبح کو یہ اطلاع ملی تھی کہ ناری نکیتن میں رہنے والی ایک خاتون کا اسقاط حمل کرا دیا گیا ہے، بچوں کے حقوق کے تحفظ کے کمیشن نے اس خبر کا فوری نوٹس لیا اور اس کی تحقیقات کا حکم دیا۔ طبی معائنے میں یہ حقیقت غلط پائی گئی۔ خاتون کا اسقاط حمل نہیں کرایا گیا تھا یہ خبر غیر ملکی میڈیا اداروں میں بھی شائع کی گئی تھیں۔
اتوار 13 دسمبر کو ایک افواہ پھیل گئی کہ لو جہاد کیس میں کانٹھا پولیس اسٹیشن سے ناری نکیتنن بھیجی جانے والی خاتون پنکی کا زبردستی اسقاط حمل کرا دیا گیا ہے۔ پورے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر وشیش گپتا نے ضلع پروویژن آفیسر کو پنکی کا میڈیکل چیک اپ کروانے کی ہدایت کی۔ بچی کا طبی معائنہ کرنے پر پتہ چلا کہ جنین صحت مند ہے، بچے کے دل کی دھڑکن سنائی دے رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی الٹراساؤنڈ کے ذریعے بچے کی حالت بھی دیکھی گئی جس کی میڈیکل رپورٹ بھی آچکی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دو دن قبل پنکی کو ناری نکیتن میں پیٹ میں درد ہوا تھا، جس کے بعد اسے ڈسٹرکٹ ویمن اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ گزشتہ کل صبح اسے اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔
جب پنکی کو پیٹ میں درد کی وجہ سے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ اس وقت خاتون کے سسرال میں کسی شخص نے غلط معلومات دی تھی کہ پنکی کا اسقاط حمل ہوا ہے۔ اس غلط فہمی نے ایک افواہ کی شکل اختیار کر لی۔ یہ پہلی نوجوان خاتون تھیں جنہیں اب تک لو جہاد کے معاملے میں ناری نکیتن بھیجا گیا ہے۔