نمک کی پیداوار 25 ہزار ایکڑ سے زیادہ علاقے میں کی جاتی ہے، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے نمک کی تجارت کافی متاثر ہوئی ہے، ایسے میں نمک کی صںعت میں کام کرنے والے ملازمین کا مطالبہ ہے کہ نمک کو بھی دیگر اشیاء ضروریہ میں سمجھا جائے اور اس کی پیداوار کے عمل کے لئے کرفیو میں کسی حد تک رعایت دی جائے۔
دراصل مہاتما گاندھی نے نمک پیدا کرنے والے علاقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا نمک ستیہ گرہ شروع کیا تھا۔ آپ کو بتا دیں، بھارت میں تمل ناڈو میں بڑے پیمانے پر نمک سازی ہوتی ہے، توتيكورن ضلع کے ویمرے سے پیرياتھجی تک کے ساحلی گاؤں میں ماہی گیری جیسی ہی ایک اہم صنعت نمک کی پیداوار ہے۔
گجرات کے بعد تمل ناڈو ملک کی دوسری سب سے بڑی نمک پیدا کرنے والی ریاست ہے، ملک میں نمک کی کل پیداوار میں تمل ناڈو کی 12 فیصد شراکت ہے، جس میں تھوتھوکڑی، راماناتھ پورم، ناگاپٹنم، ویلو پورم اور کانچی پورم جیسے اہم اضلاع شامل ہیں۔
اس نمک مینوفیکچرنگ انڈسٹری سے 60 ہزار سے زیادہ افراد جڑے ہوئے ہیں، جن میں سے تقریبا 30 ہزار نمک کی پیداوار کے شعبے میں براہ راست ملوث ہیں، 25 ہزار بالواسطہ اس سے منسلک ہیں یا اس سے متعلقہ ملازمتوں سے منسلک ہیں جبکہ اس کی پیداوار تقریبا 25 ہزار ایکڑ سے زیادہ کے رقبے میں ہے۔
کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کی وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہے، ملک میں ایسی بے مثال صورتحال کی وجہ سے نمک صنعت مکمل طور پر بدحال ہونے کے دہانے پر ہے۔