چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد اور دیگر دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ کارسیوکوں نے منصوبہ بند طریقے سے ایک خاص حکمت عملی کے تحت پر تشدد ریلی نکالی، جس کے سبب فسادات پھوٹ پڑے اور 16ویں صدی کی 489 برس قبل تعمیر شدہ مسجد کو شہید کر دیا گیا۔
مسجد کے انہدام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس وقت کی اعلی قیادت ملوث تھیں جن میں قابل ذکر طور پر اترپردیش کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ، بی جے پی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی، اشوک سنگھل، ونے کٹیار، اوما بھارتی اور ساکشی مہارج شامل تھے۔
مختلف ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مسجد پر حملہ ایک مہینے کی خفیہ تیاری کے بعد کیا گیا تھا اور اس خفیہ آپریشن کو ’رام جنم بھومی‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ ہندو تنظیموں سمیت سنگھ پریوار کے مختلف دھڑوں نے تیار کیا تھا۔ جس کی پوری اطلاع اس وقت کے وزیراعظم نرسمہا راؤ کو تھی تاہم، انہوں نے بابری مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہ کی۔
اس مقدمے کے ملزم سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے ایک مرتبہ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ 'اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کے طور پر میں نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ ایودھیا تحریک میں شامل رام بھکتوں پر گولیاں نہ چلائی جائیں، جو بابری مسجد کو منہدم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کی پوری ذمہ داری میں لیتا ہوں'۔
ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوما بھارتی نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر یہ تسلیم کیا تھا کہ ' یہ گائے، گنگا ،رام اور ترنگے کا ملک ہے، اگر ان کی بے عزتی ہوگی تو میں اس کے حق کا دفاع کروں گی'۔ اور انہوں نے مزید کہا تھا کہ ' مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں ایودھیا تحریک میں شامل تھی'۔