ریاست اترپردیش کے بدایوں کے رہنے والے اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایم ایس سی بائیوٹیکنالوجی کے طالب علم نجیب احمد کے لاپتہ ہوئے 4 برس گذر گزر چکے ہیں۔ نجیب احمد 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہے۔
اپنے بیٹے کی گمشدگی کے چار برس مکمل ہونے کے بعد نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے گذشتہ روز اپنے فیسبک اکاؤنٹ کے ذریعہ ایک ویڈیو جاری کیا ہے، جس میں دہلی پولیس کی تحقیقات پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے قوم سے نجیب کے لیے سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کی اپیل کی ہے۔
نجیب کی گمشدگی کے چار برس بعد بھی کوئی سراغ نہیں دہلی پولیس کی تحقیقات پر سوال اٹھاتے ہوئے فاطمہ نفیس نے کہا 'جس طرح دہلی پولیس نے نجیب کے معاملے کو دیکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، دہلی پولیس نے نجیب کے مجرموں کو کھلا چھوڑ دیا ہے، اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ دوسری طرف جو نوجوان نجیب کے حقوق کے لیے آواز بلند کررہے تھے، انہیں جیل کی چہار دیواری کے اندر قید کر دیا گیا۔'
اپنے ویڈیو پیغام میں فاطمہ نفیس کہتی ہیں کہ 'یہ دہلی پولیس کی کارستانی ہے جہاں گرفتاری کرنی تھی وہاں بے شرمی دکھائی اور اب طلباء اور سماجی کارکنان کو جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ دہلی پولیس نے جو کچھ بھی کیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔'
فاطمہ نفیس آگے کہتی ہیں 'معصوم طلباء کو گرفتار کیا جارہا ہے اور اس کے لیے انہیں تمام گواہ اور ثبوت مل رہے ہیں لیکن نجیب کے معاملے میں گواہوں اور ثبوتوں کے ہونے کے بعد بھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔'
انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا 'میں آپ سب سے اپیل کرتی ہوں کہ ہمیشہ کی طرح میرا ساتھ دیں اور 15 سے 16 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر نجیب کے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔'
ایک ماں ٹکٹی لگائے نظروں سے اب بھی اپنے بیٹے نجیب کی آس لیے بیٹھی ہے اور پر امید ہے کہ اس کا بیٹا ایک دن لوٹ کر ضرور آئےگا، ایک ماں کا یقین ایسا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے لیکن ماں کے یقین میں لرزش تک نہ آئے، وہ کہتی ہیں کہ 'مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا ایک دن لوٹ کر ضرور آئے گا۔'
خاص بات تو یہ ہے ملک کی تمام اہم تحقیقاتی ادارے جن میں ایک خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی)، دہلی پولیس کی کرائم برانچ اور مرکزی تفتیشی ادارہ سی بی آئی کی تحقیقات کے باوجود نتیجہ صفر ہے۔
خیال رہے کہ جس وقت نجیب احمد لاپتہ ہوا تھا اس وقت اس کی عمر 27 برس تھی اور مبینہ طور پر ایک رات قبل ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طلبا ونگ، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے اراکین کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا، نجیب کے اہل خانہ نے متواتر طور پر کہا ہے کہ اس کی گمشدگی اس حملے سے وابستہ ہے۔