جی ڈی پی ایک ایسا لفظ ہے، جو ہر تین ماہ میں اخباروں اور ٹی وی چینلز کے درمیان موضوع بحث بنا رہتا ہے۔ لیکن جی ڈی پی کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں ہے، اور اس پر اتنی بحث کیوں ہوتی ہے۔ یہ سبھی کچھ بتائیں گے اپنی اس خاص رپورٹ میں۔
گذشتہ 29 نومبر کو ' سی ایس او' کی جانب سے جی ڈی پی کے اعداد شمار جاری کیے گئے ہیں، جس میں مالی سال سنہ 2019۔ 20 کے دوسرے کوارٹر میں جی ڈی پی کی ترقی کی شرح بےحد کم یعنی 4 اعشاریہ 5 فیصد درج کی گئی ہے۔
جی ڈی پی کی یہ شرح گذشتہ 26 کوارٹر میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔ سنہ 2013 میں عالمی مندی کے سبب جی ڈی پی کی شرح گھٹ کر 4 اعشاریہ 3 فیصد پر پہنچ گئی تھی، لیکن رفتہ رفتہ ترقی ہوئی، اور سنہ 2018 کے پہلے کوارٹر میں جی ڈی پی 8 فیصد تک جا پہنچی۔ لیکن اس کے بعد سے ہی مسلسل گھٹتی جی ڈی پی آخر کار 4 اعشاریہ 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کی گاڑی پٹری سے تقریبا اتر گئی ہے۔
سی ایس او کی جانب سے مجموعی طور پر 8 شعبوں سے متعلق جی ڈی پی کی رپورٹ جاری کی گئی ہے، ان میں سے محض دو میں بہتری آئی ہے، جبکہ بقیہ 6 شعبوں میں زبردست گراوٹ درج کی گئی ہے۔
ان میں خاص طور پر مینوفیکچرنگ کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یعنی گذشتہ برس کے مقابلے 6 اعشاریہ 9 فیصد سے گھٹ کر منفی ایک فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ انہیں وجوہات کے سبب تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والے ممالک میں بھارت پہلے نمبر سے گر کر پانچویں نمبر پر آ گیا ہے۔
ان اعداد و شمار کے آنے کے بعد ملک بھر میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ معیشت کے جانکاروں کے مطابق جی ڈی پی کا مسلسل گرتے رہنا بھارت کی معیشت کے لیے انتہائی مشکل گھڑی ہے۔
کیا حکومت اس کو سدھارنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے؟
اس کا جواب ہے کہ حکومت کوششیں تو ضرور کر رہی ہے، لیکن یکے بعد دیگرے کی گئی سبھی کوششیں تقریبا ناکام نظر آ رہی ہیں۔ مثلا حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں 1 لاکھ 45 ہزارو کروڑ کی چھوٹ دی ہے، تاکہ کارپوریٹ کی جانب سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے، اس کے علاوہ حکومت نے آر بی آئی سے 1 لاکھ 76 ہزار کروڑ روپے لیکر اس کا استعمال کیا ہے۔ ساتھ ہی آر بی آئی نے سود کی شرح میں کمی بھی کر دی ہے، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود اب تک جی ڈی پی کی حالت میں سدھار نظر نہیں آ رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ سماج میں ہر طرف خوف کا ماحول ہونے کے سبب جی ڈی پی میں کمی ہوئی ہے، اور حالیہ دنوں میں معاشی بہتری کے لیے اٹھائے گئے قدم موثر ثابت نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ صنعتکار سے لیکر پولیسی میکرز تک سبھی خوف کے ماحول میں زندگی گذار رہے ہیں، اور سچ بولنے سے ڈرتے ہیں۔ ان کی اس بات کی تصدیق بھارت کے معروف تاجر راہل بجاج نے بھی کر دی ہے۔ راہل بجاج نے کہا کہ اس قدر خوف کا ماحول ہے کہ کوئی بھی صنعتکار حکومت کے خلاف بول نہیں سکتا۔ اس لیے اگر معاشی بہتری چاہیے تو سماج سے خوف کا ماحول دور کر کے، لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنا ہو گا۔
یہ تو رہی موجودہ اعداد و شمار کی بات۔ اب آئیے سمجھتے ہیں کہ، جی ڈی پی اصل میں ہے کیا اور اس کا استعمال کیوں ہوتا ہے؟
در اصل جی ڈی پی یعنی 'گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ' جسے اردو میں 'مجموعی گھریلو پیداوار' کہتے ہیں۔ یہاں مجموعی کا مطلب سبھی، گھریولو سے مراد ملک، اور پیداوار سے مراد ہر طرح کی پیدا وار ہے۔ یعنی ملک بھر میں کھیتوں کے اندر جو کچھ بھی پیدا ہو رہا ہے، کارخانوں میں جو بھی سامان بنائے جا رہے ہیں اسی طرح تعلیم، صحت اور بینکنگ سیکٹرز جیسی مختلف سروسز کو شامل کر کے ملک میں جس بھی کام سے پیسہ بن رہا ہے، اسی کی ترقی اور گراوٹ سے متعلق سال بھر میں جو بھی لیکھا جوکھا سامنے آتا ہے، اسی کو جی ڈی پی کہا جاتا ہے۔