کیا ٹیلی کام سیکٹر کی بڑی کمپنیز ووڈافون اور آئیڈیا بند ہونے والی ہیں؟ کیا بھارت میں ریلائنس جیو کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی؟ کیا بھارت میں موبائل ڈیٹا اور وائس کالز بہت مہنگی ہو جائیں گی۔ پیش ہے اس سلسلے میں خصوصی رپورٹ
در اصل 24 اکتوبر سنہ 2019 کو بھارتی سپریم کورٹ نے بھارت میں کام کرنے والے ٹیلی کام آپریٹرز، خواہ وہ بند ہو چکے ہوں یا کام کر رہے ہوں، سبھی کو اے جی آر یعنی 'ایڈجسٹیڈ گروس ریونیو' کے تحت تین مہینے کے اندر 92 ہزار 642 کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس کے علاوہ سبھی کمپنیز کو 55ہزار 54 کروڑ روپے سود اور جرمانے کی رقم بھی چکانی پڑے گی، جو کل ملاکر 1 لاکھ 47 ہزار 696 کروڑ روپے ہو جائے گی۔ اس میں سب سے زیادہ 44 ہزار کروڑ سے زائد ووڈافون اور آئیڈیا کو دینا ہو گا۔ اور سب سے کم رقم یعنی محض 41 کروڑ روپےجیو کو ادا کرنی ہوگی۔
کیا جیو کے علاوہ ساری کمپنیز بند ہو جائیں گی؟
اس کے دو جواب ہیں ایک ہاں اور دوسرا نہیں۔
ہاں اس لیے کہ حالیہ دنوں میں ووڈافون اور ائیرٹیل نے اپنا خسارہ 74 ہزار کروڑ روپے دکھایا ہے۔ اور اب جبکہ ان دونوں کمپنیز کو گذشتہ ماہ سپریم کورٹ نے تقریبا 50 ہزار کروڑ روپے ' اے جی آر' کے تحت دینے کو کہا ہے۔ تو ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے ہی سے خسارہ دکھانے والی کمپنیز کے لیے اتنی بڑی رقم چکانا ناممکن سا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ریلائنس جیو 5 جی کی تیاری کر رہا ہے، جبکہ ووڈافون اور آئیڈیا خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ووڈافون کے سی ای او نک ریڈ نے بھارت چھوڑنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ووڈافون اور آئیڈیا اپنا بوریہ بستر سمیٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
دوسرا جواب ہے، کہ یہ کمپنیز بند نہیں ہوں گی۔
نہیں اس لیے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ ووڈافون اور آئیڈیا نے جیو کے لانچ ہونے سے قبل بے تحاشہ منافع کمایا ہے، اور اس منافعے سے متعدد کمپنیز بنائی گئی ہیں، اس لیے اگر ان میں سے کچھ کمپنیز کو فروخت کر دیا جائے تو یہ رقم چکائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے ووڈافون، آئیڈیا، ایئرٹیل اور جیو کو 42 ہزار کروڑ روپے کی رقم کی ادائیگی میں دو برس کی مہلت دے دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ووڈافون،آئیڈیا اور ائیرٹیل نے اپنی خدمات کو یکم دسمبر سے مہنگا کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے، تاکہ اپنی دینداری چکا سکیں۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کمپنیز بند ہونے سے بچ سکتی ہیں۔
کیا یہ سب کچھ جیو کی وجہ سے ہے؟
شاید نہیں، کیوں کہ 'اے جی آر' یعنی ایڈجسٹیڈ گروس ریونیو کی کہانی تقریبا 20 برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ سنہ 1994 میں 'نیشنل ٹیلی کام پالیسی' کے تحت ٹیلی کام سیکٹر کو آزاد کیا گیا۔ اس کے بعد ٹیلی کام آپریٹرز کو لائسنس اور اسپیکٹرم فیس کے طور پر ایک متعینہ رقم دینے کو کہا گیا۔ اس طرح پانچ برس تک ایسا ہی چلتا رہا لیکن سنہ 1999 میں حکومت نے کمپنیز کو ان کے مطالبے کے تحت متعینہ رقم کے اے جی آر یعنی ریونیو شیئرنگ سسٹم کی بات کہی۔
اس کے بعد سے ہی حکومت اور کمپنیز کے درمیان ' اے جی آر' کا ڈیفینیش طے کرنے سے متعلق تنازع شروع ہو گیا۔
کمپنز کا کہنا تھا کہ محض وائس کالز اور ڈیٹا سروسز سے ہونے والی آمدنی ہی ' اے جی آر' کے ڈیفینیشن میں آئے گی، یعنی انہیں دونوں سروسز کی ریونیو شئیرنگ حکومت کو ملنی چاہیے، جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ کمپنی کا مکمل سرمایہ 'اے جی آر' کے تحت شامل ہو گا۔ مثلا وائس کالز اور ڈیٹا سروسز سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ بینک میں کمپنی کے فکس ڈپوزٹ سے ملنے والا سود، اور کمپنی کی زمین سے ملنے والا کرایہ یہاں تک کہ اگر کمپنی کو کہیں سے چندہ بھی ملا ہے، تو اسے بھی' اے جی آر' میں شامل کیا جائے گا۔ اور اسی ریونیو شیئرنگ کے مطابق کمپنی کو رقم چکانی ہو گی۔