اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

معاہدے کے بعد امریکہ طالبان جنگ ختم ہوگی؟ - امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو

امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری ایک طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟

امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو
امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو

By

Published : Feb 29, 2020, 6:03 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 11:37 PM IST

امریکہ کے اعلیٰ عہدیدار طالبان کے مذاکرات کار اور مختلف ممالک کے مندوبین کی موجودگی میں آج 'امریکہ، طالبان معاہدے' پر دستخط کیے جارہے ہیں۔

امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو جہاں دستخط کی تقريب ميں شریک ہیں، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیں گے۔

امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو جہاں دستخط کی تقريب ميں شریک ہیں، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیں گے

بھارت کے سفیر برائے قطر پی کمارن اور اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، مسٹر پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس معاہدہ پر بھارتی وقت کے مطابق شام سوا چھ بجے دستخط ہوں گے، بظاہر جہاں افغانستان میں اٹھارہ برس سے زیادہ سے چلی آرہی طویل جنگ کے خاتمےکا اعلان ہے، وہیں اس سمجھوتے کے تعلق سے بباطن امکانات سے زائد اندیشے محسوس کیے جارہے ہیں۔

بھارت کے سفیر برائے قطر پی کمارن اور اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، مسٹر پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے اس معاہدے میں طالبان کو جو رعایتیں دی جارہی ہیں، ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان ميں متعین امريکی افواج کے انخلاء کی راہ کس طرح ہموار ہو تی ہے اور طالبان اور حکومت افغانستان کے مابين راست بات چیت کا آغاز کتنا کارگر ہوتا ہے۔؟

اس معاہدے سے قبل یہاں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے ایک سے زائد مواقع پر ملاقاتیں کیں اور اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی، اگر یہ سلسلہ مطلق بے دم ہوتا تو مذاکرات کار بظاہر فیصلہ کن موڑ تک نہیں پہنچ پاتے۔

بھارت کے سفیر برائے قطر پی کمارن اور اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، مسٹر پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے

واضح رہے کہ اگست سنہ 2019 میں بھی فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے، لیکن اگلے ہی مہینے ستمبر میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جنگجوؤں نے نشانہ بنایا جس نے سارا کھیل بگاڑ دیا اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات روک دیے۔

چار ماہ بعد اگرچہ آج ایک تاریخی معاہدہ تکمیل کے حتمی مرحلے میں ہے، لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کو اب بھی راستہ پوری طرح ہموار نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ ایک طرف طالبان کا ماضی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور دوسری طرف امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں۔

افغانستان اور علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے اس معاہدے میں دونوں طرف جو وِن وِن پوزیشن دکھائی جارہی ہے اس کا تعلق افغانستان یا امریکہ کے عوام سے نہیں بلکہ طالبان کی ایک دیرینہ مانگ اور امریکی انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کی صدر ٹرمپ کی خواہش سے ہے۔

واضح رہے کہ اگست سنہ 2019 میں بھی فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے، لیکن اگلے ہی مہینے ستمبر میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جنگجوؤں نے نشانہ بنایا جس نے سارا کھیل بگاڑ دیا اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات روک دیے

ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان کا دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو ہٹایا جائے اور امریکہ میں بھی جنگی جنون سے عاجز عوام امریکی فوجیوں کی جلد ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔

ہر چند کہ طالبان اس معاہدے میں افغان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے، باوجود اس کے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے اگر ذمہ داری کے محاذ پر کوئی خلا پیدا کیا تو حالات پورے خطے کے لیے بری طرح بے قابو ہوسکتے ہیں۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 11:37 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details