مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔ 13 برس کی عمر میں آپ کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی لیکن غالب کی کوئی اولاد بھی پیدائش کے بعد جانبر نہ رہ پائی۔ ان سانحے کا غالب کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نمایاں رہا۔
ہواہےشہکامصاحبپھرےہےاتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ غالب کی شاعری کا انداز منفرد تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب نے دیوان کے ڈھیر لگانے کے بجائے بہترین شاعری کے حامل چند ہزار اشعار کہے ہیں اور ان کے خطوط کو بھی اردو ادب میں خاص درجہ حاصل ہے۔
غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا، جنون، انسانی معاملات، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔
سبزہ و گل کہاں سے آئے
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے۔
مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔
نثر کے میدان میں غالب نے کوئی فن پارہ تخلیق نہیں کیا لیکن منفرد انداز سے خط نگاری کی اور یوں 'غالب کے خطوط' اپنے لب و لہجے، اندازِ بیان، لفظوں کے انتخاب اور نثر میں شاعرانہ انداز کے باوصف اردو ادب کا وہ شاندار شاہکار سرمایہ ثابت ہوئے جسے ان کے انتقال کے بعد یکجا کیا گیا۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک