اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

اردو کونسل نے بھی مولانا آزاد کو فراموش کیا

مولانا ابوالکلام آزاد، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے، ان کے یوم ولادت کے موقع پرسرکاری تقریبات منعقد کرنے کی روایت کب کی دم توڑ چکی ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ وزارت تعلیم کے ماتحت اردوکا واحد ادارہ اردو کونسل نے بھی آزاد کو فراموش کر دیا۔

اردو کونسل نے بھی مولانا آزاد کو فراموش کیا

By

Published : Nov 12, 2019, 10:33 AM IST

ملک بھر میں سیمینار کرنے اور پروگرام کو فنڈ دینے کے لیے مشہورہے، لیکن اردوکونسل نے مولانا آزاد پرکوئی بھی بڑی تقریب منعقدنہیں کی۔ بلکہ اپنے ہی دفتر میں اپنے عملہ کے ساتھ ایک میٹنگ کرنے پر اکتفا کیا۔

جبکہ خودوزارت تعلیم نے بھی اس تعلق سے کوئی پروگرام منعقدنہیں کیا۔ ایک پروگرام ترتیب میں تھا، مگرجے این یومیں احتجاج کی وجہ سے اسے بھی عین موقع پرملتوی کردیا گیا۔


اردو کونسل نے پریس ریلیز جاری کرکے بتایاکہ 'حکومت ہند ہر برس 11 نومبر کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر ملک بھر میں یوم تعلیم منانے کی ہدایت دیتی ہے۔ اسی کے تحت کونسل کے دفتر میں بھی پروگرام کیا جارہا ہے'۔

جس میں خود اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے خطاب کیا اور کہا کہ مولانا آزاد نے ہندوستان کو جس طرح متحد کرنے کی کوشش کی موجودہ وقت میں اس اتحاد کی بے حد ضرورت ہے۔

اس موقع پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے مولانا آزاد کی پیدائش سے لے کر موت تک تمام باتوں کومربوط اور مبسوط طریقے سے پیش کیا۔

اردو کونسل نے بھی مولانا آزاد کو فراموش کیا

انھوں نے کہا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی پوری سیاسی زندگی متحدہ قومیت، رواداری کے لیے وقف تھی۔ ملک کی آزادی میں مولانا کی صحافتی کوششوں سے انکار ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے انگریزوں کے ظلم و تشدد کے خلاف پوری قوم کو بیدار کرنے کے لیے 'الہلال' نامی رسالہ جاری کیا۔

اس پر پابندی لگنے کے بعد 'البلاغ' نامی رسالہ نکال کر مجاہدین آزادی کے اندر جذبہ تحرک کو بیدار کیا۔ مولانا آزاد کو اس ملک سے بے پناہ محبت تھی۔


تقسیم ہند کے وقت مسلمان اپنے آبا و اجداد کی سرزمین چھوڑ کر پاکستان کوچ کر رہے تھے، اس وقت مولانا آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے جذباتی تقریر کی جسے سننے کے بعد پاکستان جانے کا ارادہ بہت سارے مسلمانوں نے ترک کر دیا۔

انھوں نے اس موقع پر کہا کہ 'مولانا آزاد کی ذاتی لائبریری میں لگ بھگ آٹھ ہزار کتابیں تھیں جسے انھوں نے ICCR کے حوالے کر دیا۔ ان کتابوں میں کچھ ایسی کتابیں تھیں جس پر مولانا آزاد نے پینسل سے حواشی لکھے تھے اس کے علاوہ ترجمان القرآن کے قلمی نسخے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس پر مزید کام کی ضرورت ہے'۔

اس موقع پر پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ماضی پرستی گرچہ بہت بڑا گناہ ہے لیکن ماضی کے ان حصوں کو تراش خراش کرنا چاہیے جو سڑ گل گیا ہے اور جو چیزیں اچھی ہیں ہمیں ان کو قبول کرنا چاہیے۔ آج مولانا آزاد کی باتوں کی بازیافت ضروری ہے اور یہ موجودہ وقت کا تقاضا بھی ہے'۔

اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ 'مولانا آزاد کی بہت مخالفت ہوئی تھی مگر اب مولانا آزاد کے نظریات کی بازگشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ ایک طرح سے مولانا آزاد کے نظریات کی پھر سے تجدید ہو رہی ہے'۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی نے تمام حضرات کا شکریہ ادا کیا۔


اس پروگرام میں دبئی کے مشہور شاعر جناب شاداب الفت اور بریلی سے جناب شارق کیفی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر توقیر عالم خان، پروفیسر دیوان حنان خان، ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر ابو بکر عباد، جناب عبد السلام (یو این آئی) ، جناب معصوم مرادآبادی، جناب عقیل احمد (سکریٹری غالب اکیڈمی) کے ساتھ کونسل کاعملہ بھی موجود تھا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details