پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں بتایا کہ سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کے بعد اسے چار ہفتوں تک ٹال دیا ہے جو کہ ایک قانونی طریقہ ہے ان کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ میں تقریبا 144 سے زائد عرضیا آچکی ہیں، لیکن سپریم کورٹ نے اپنی پہلی سماعت میں حکومت سے جواب طلب کیا تھا'۔
شکیل احمد نے کہا کہ 'عدالت نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا'، 'ان کا کہنا تھا کہ 144 عرضیا پہلے سے ہی داخل ہیں لہٰذا کورٹ نے اب مزید اور درخواست لینے سے انکار کر دیا ہے، کورٹ نے کہا ہے کہ اگر اور مزید عرضیاں لی جاتی ہیں تو پہلے ہی والی عرضیوں پر سماعت نہیں ہوئی ہے، کیوں کہ سبھی درخواست کا جواب دینا اور پڑھنا اس میں وقت لگتا ہے سب کا ایک طریقہ دیا ہوا ہے'۔
'اس طریقے کے حساب سے ان کو ( مرکزی حکومت)کہا گیا ہے کہ آپ چار ہفتوں میں جواب دیجیے، چار ہفتے کے بعد ہوسکتا ہے اس کیس کو آئینی بینچ کو بھیجا جائے اور اگر آئینی بینچ کو بھیجا گیا تو اس میں کافی وقت لگے گا کیوں کہ یہ ایک آئینی معاملہ ہے۔
سماعت ٹالنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ درست: پروفیسر شکیل احمد ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'شہریت ترمیمی قانون میں جو چھہ کمیونٹیز کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے، جو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہیں اور ساتویں کمیونٹی یعنی مسلمانوں کو آپ تسلیم نہیں کر رہے ہیں تو یہ آرٹیکل 14 کے خلاف ہے، 'میں یہ سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے جو یہ کیا ہے قانون کے مطابق کیا ہے، نذیر صاحب بھی ہیں اس کے جج'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'سپریم کورٹ کے جج یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے تو پورے عمل کی پیروی کریں گے، اب اس میں مہینے بھی لگ سکتے ہیں سال بھی اور سالوں بھی لگ سکتے ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہیں ہوں کہ کورٹ اس پر روک لگا دیتا، ظاہر ہے کہ جج کو آپ گائیڈ تو نہیں کر سکتے جج جو بہتر سمجھے گا وہی کرے گا'۔