ڈاکٹر ذاکر حسین کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبا و طالبات نےوائس چانسلر اور رجسٹرار کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے استعفے کا مطالبہ کیا اور امتحانات کا بائیکاٹ کیا جس کے بعد یونیورسٹی طلبہ یونین کے سابق صدر شہزاد عالم برنی نے یونیورسٹی کے طلبا سے اپیل کی کہ وہ تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر نہیں ہونے دیں۔
اے ایم یو کے سابق طلبا یونین کے صدر کی ای ٹی وی سے خصوصی گفتگو ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے شاہد شہزاد عالم برنی نے کہا کہ 'دیکھیے جو احتجاج چل رہا ہے وہ اس لیے چل رہا ہے کیونکہ یونیورسٹی کھلی ہوئی ہے اور بچّے بہت زیادہ جذباتی طور پر منسلک ہیں اور جو کلاسز بائیکاٹ کر رہے ہیں اس سے مضبوطی مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر ہونے کے ناطے میں بچوں سے یہ کہنا چاہوں گا یونیورسٹی پر بہت زمانے سے کچھ ایسی طاقتوں کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں جو یہ کوشش کرتی رہتی ہیں کہ یونیورسٹی پوری طرح سے بند ہو جائے اور تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ ہو جائیں تاکہ یہ برادری خاص طور سے جس کے بچے زیادہ پڑھتے ہیں وہ پڑھ نہیں پائیں اور جو غیر مناسب چیزیں ہیں اس میں شامل ہوجائیں، تو بچوں کو اپنا احتجاج کرتے رہنا چاہیے یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا لیکن بچوں کو یہ ضرور سمجھنا ہوگا کہ اس سے ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔
شہزاد عالم برنی نے مزید کہا 'ان کے جو بھی مطالبات ہیں چاہے وہ 'سی اے اے'، 'این آر سی' یا وائس چانسلر اور رجسٹرار کے استعفے ہوں یا اور بھی دیگر مطالبات ہوں لیکن اس کا اثر تعلیم پر نہیں پڑنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی احتجاج ہوتا ہے تو مطالبات بھی ہوتے ہیں لیکن مطالبات اپنی جگہ ہے احتجاج اپنی جگہ ہے ان سب میں پڑھائی سب سے زیادہ ضروری ہے اس کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے اگر وہ بائیکاٹ کرتے ہیں تو مجھ کو لگتا ہے کہیں نہ کہیں وہ اس سوچ کو بڑھاوا دے رہے ہیں جس کے بارے میں ان کو اندازہ بھی نہیں ہے، وہ اس سوچ کو بڑھاوا دے رہے ہیں جو ہمیشہ ان کے خلاف رہی ہیں'۔
'وہ اپنا احتجاج کریں اور احتجاج میں علی گڑھ کی ساری برادری سبھی کا یہ کہنا ہے کہ ہم سب بچوں کے ساتھ ہیں اور احتجاج ہم ان ساتھ شامل ہیں، لیکن ہم ان سے یہ درخواست ضرور کریں گے کہ وہ اپنے امتحانات اور اپنی کلاسز کا بائیکاٹ نہ کریں جس طرح سے جامعہ اور جے این یو احتجاج کر رہے ہیں اور وہ کلاس بھی کر رہے ہیں اور دن میں وہ احتجاج بھی کرتے ہیں'۔
'طلبا احتجاج کریں یہ ان کا حق ہے ملک کا آئین بھی ان کو اس کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پڑھائی کو بالکل بھی متاثر نہیں ہونے دیں یہ نقصان یونیورسٹی اور بچوں کا ہو رہا ہے'۔