جبکہ طالبان ذرائع نے بتایا کہ عسکری گروہ نے مغویوں کو ’نئے اور محفوظ مقام‘ پر منتقل کردیا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے گزشتہ منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ طالبان کے عسکری گروپ حقانی نیٹ ورک کے3 رہنماؤں کا تبادلہ یونیورسٹی کے 2 پروفیسرز سے کریں گے جس میں ایک امریکی کیون کنگ اور ایک آسٹریلوی ٹموتھی ویک شامل ہیں۔
مذکورہ معاہدہ کو افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حوالہ سے خاصا اہم سمجھا جارہا تھا جو کابل حکومت کو کٹھ پتلی قرار دے کر ان کے بات چیت سے انکاری تھے۔
تاہم واشنگٹن میں موجود سفارت کار کا کہنا تھا کہ زیر حراست افراد کا تبادلہ نہیں ہوسکا اس ضمن میں جمعہ کے روز ایک افغان عہدیدار نے بتایا کہ اسے موخر کردیا گیا ہے اور مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس التوا کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کا تبادلہ نہ ہونے کے پیچھے امریکہ قصوروار ہے۔
اس سلسلے میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما کے بھائی انس حقانی کے رشتہ دار سمیت طالبان ذرائع نے بتایا کہ عسکری کمانڈرز کو رہا کر کے قطر روانہ کیا جانا تھا لیکن انہیں افغان دارالحکومت کابل سے دور بگرام جیل میں واپس بھیج دیا گیا۔
انس حقانی کے رشتہ دار نے بتایا کہ ہماری ان سے اس وقت بات ہوئی تھی جب انہیں بگرام جیل سے نکالا گیا تھا اور انہیں نئے کپڑے بھی دئیے گئے تھے تاہم معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر انہوں نے مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔
خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے ہمیں بتایا کہ طالبان اراکین کو طیارہ میں سوار کروانے کے لئے لے جایا جارہا ہے اور ہم دوحہ میں ان کی آمد کا انتظار کرتے رہے لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد ہمیں شبہ ہوا'۔مزید ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے جیل میں طالبان قیدیوں اور افغان سیکورٹی فورسز کےا راکین سے قیدیوں کی واپس بگرام جیل منتقلی کے بارے میں سنا، اس اقدام نے طالبان کو ’حیران اور دل گرفتہ‘ کردیا ہے۔