صحتِ عامہ کی ایمرجنسیوں کے دوران سماجی مصروفیت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایسے حالات میں حکومت اور نظام ہائے صحت کو برادریوں، بیماروں اور ان کے خاندانوں ،مختلف اقسام کے دیگر حصہ داروں ،شراکت داروں اور شعبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔مختلف برادریوں کو مصروف کرنے کا اقدام حال ہی ایبولا وائرس کے زونوٹک انفیکشن اور نپاہ وائرس سے بڑے پیمانے پر پھیلنے والی بیماریوں سے نمٹنے کے دوران بڑا موثر ثابت ہوا ہے۔
تازہ واقعہ ہے کہ جب سنہ 2018 میں افریقہ کے شمالی کانگو میں ایبولا وائرس پھوٹ پڑا اور سنہ 2019 جولائی میں اس پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک میڈیکل ایمرجنسی قرار دیا گیا، اس کے بعد ہی سنہ 2018 میں ہی بھارت کے کیرالہ میں نپاہ وائرس پھوٹ پڑا تھا جسے عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او)نے جنوب مشرق ایشیائی خطہ میں ابھرنے کو تیار میڈیکل ایمرجنسی قرار دیا۔
کمیونٹی اینگیجمنٹ (سماجی مصروفیت)کیا ہے؟
عالمی صحت تنظیم نے سماجی مصروفیت کی یوں تشریح کی ہے کہ 'تعلقات استوار کرنے کا ایک ایسا عمل جو مثبت صحت اور نتائج کے حصول کے لیے متعلقین کو صحت سے متعلق مسائل پر توجہ کرنے اور تندرستی کو فروغ دینے کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کے اہل بنائے'۔
یہاں پر کمیونٹی کے مراد عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مختلف پیشہ ور، جیسے ماہرینِ تعلیم، صحتِ عامہ کے ماہرین،منصوبہ ساز افراد اور ادارے وغیرہ سے ہے۔کمیونٹی اینگیجمنٹ کے پیچھے یہ سوچ اس اصول پر مبنی ہے کہ صحت اور بیماری لوگوں کے سماجی اور معاشرتی سیاق و سباق سے تشکیل پاتی ہے۔
کمیونٹی اینگیجمنٹ کے نفاذ سے متعلق بعض طریقے اور تدابیر سماجی متحریک کاری (سوشل موبلائزیشن ) سماجی تحریک،کمیونکیشن (وبا، بحران، خطرات) اور صحت سے متعلق جانکاری کے ذرائع صحت و تندرستی کا فروغ۔
اس سے کس طرح مدد ہوتی ہے؟
سوشل موبلائزیشن:
سماجی متحرک کاری یا سوشل موبلائزیشن آپس میں جڑے ہوئے مختلف کرداروں کے باہمی تعاون سے ایک تبدیلی کا ماحول بناتی ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت نئے وسائل (امدادی فنڈ برائے انسدادِ کووِڈ-19)کے حصول، اتحادیوں کو مستحکم کرنے(ٹیسٹ کرنے میں نجی شعبہ کی تکنیکی حصہ داری،نگرانی اور ادویات کی پیداوار،ذرائع ابلاغ میں جاری مہم وغیرہ)کے جیسی چیزوں کے اہل ہوگئی ہے۔
اسکے علاوہ مقامی برادریوں کو کووِڈ-19 کی وبا کی انسدادی کوششوں میں شامل کرنا نہایت ضروری ہے۔مقامی برادریوں کے قائدین کی نشاندہی کرکے انہیں منظم طریقے سے مصروف کرنا انتہائی لازمی ہے جبکہ سماجی رویئے میں تبدیلی کے لیے خواتین کو خاص طور سے متحرک کرکے ان سے جانکاری پھیلانے کا کام لینا بھی مساوی طور پر ضروری ہے۔
سماج کے اقتصادی، سماجی اور سیاسی پہلوؤں کا تجزیہ کرکے صحتِ عامہ کی ایمرجنسیوں کے دوران وبائی امراض سے نمٹنے کی حکمتِ عملی میں اس تجزیہ کو مدِ نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے جبکہ مختلف معاشروں کے ساتھ اس طرح کام کرنا ،کہ جس سے اس کی تہذیب،تعلیم اور تجربات کو فروغ ملتا ہو، بھی اہمیت کا حامل ہے۔
جہاں تک کیرالہ کا تعلق ہے انہوں نے نپاہ وائرس کو قابو کرنے میں کامیابی پائی لیکن اس کام میں کمیونٹی موبلائزیشن نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
مثال کے بطور: بہتر و منظم طریقے سے قائم کردہ دیہی پنچائتی نظام اور اربن لوکل باڈیز نے روابط تلاش کرنے اور خاندانوں کی مدد کرنے میں بڑا رول ادا کیا جبکہ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)،مذہبی و سماجی لیڈروں اور مفکروں سمیت ہر کسی نے سرکاری کوششوں کو مضبوط کرنے میں اپنا حصہ دیا۔
وبائی بیماری سے نپٹنے کے اس کیرالہ ماڈل نے انہیں پُر اعتماد کرنے کے ساتھ ساتھ کووِڈ19-کے ساتھ نمٹنے میں بھی مدد دی۔
کمیونِکیشن (مواصلات):