اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

کورونا کا ”علاج“کہیں کسی نئی بیماری کا بیج ثابت نہ ہوجائے! - artificial intelligence corona virus

اندر شیکھر سنگھ نے کورونا وائرس کے وبا سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کے استعمال پر کہا کہ حکومت مصنوعی ذہانت ایپلیکشنر کی مدد لے رہی ہے جس سے ہماری نجی معلومات اور پرائیوسی کو خطرہ لاحق ہے۔

کورونا کا ”علاج“کہیں کسی نئی بیماری کا بیج ثابت نہ ہوجائے!
کورونا کا ”علاج“کہیں کسی نئی بیماری کا بیج ثابت نہ ہوجائے!

By

Published : Mar 26, 2020, 6:41 PM IST


کووِڈ19کی وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے جو کچھ ہماری سرکار کر رہی ہے اسکی تعریفیں کی جانی چاہیئے۔کئی سربراہانِ مملکت نے اختلافات کو یکطرف کرتے ہوئے کورونا وائرس کے خلاف انسانیت کی اس لڑائی میں ایک ساتھ کھڑا ہونے کی اپیل کی ہے۔دنیا کے ہم مکینوںکو بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے ساتھ جاری جنگ جیتنے کیلئے مصنوعی ذہانت( اے آئی) سے لیکر بائیوٹیکنالوجی تک سبھی آپشن کھلے ہیں۔

چونکہ پوری دنیا کو ابھی لاک ڈاؤن جیسے صورت حال سے گزرنا پڑ رہا ہے، چین سے امریکہ تک کی سرکاریں اے آئی اور پرائیوٹ ڈیٹا انالیٹکس کمپنیوں کو لوگوں کی لوکیشن وغیرہ جاننے کیلئے فونز کو چھاننے کی اجازت دے رہی ہیں۔لوگوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کرنے کیلئے چہرے کی شناخت(فیشیل رکوگنشن)کرنے والی ٹیکنالوجی کو بھی کام پر لگایا گیا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ ان ٹیکنالوجیز کو کام پر لگانے کیلئے ٹینسنٹ اور علی بابا جیسی کمپنیاں چینی سرکار کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔چینی سرکار لوگوں کے اسفار کی تفصیلات جیسے وائرس سے متاثرہ علاقوں میں قیام اور اس دوران وہاں ہوئی ملاقاتیں وغیرہ کو جمع کرنے کیلئے ایپلی کیشنز کا استعمال کر رہی ہیں۔اس طرح چین کی سرکار مصنوعی ذہانت کی مدد سے لوگوں کے بارے میں ہر طرح کی معلومات حاصل کرتی ہے۔ایک بار معلومات جمع ہوگئیں لوگوں کو خود بخود نیلا،پیلا یا لال کوڈ مل جاتا ہے اور یہ کوڈ ہی بتاتا ہے کہ کس شخص کوقرنطینہ میں رہنے کی ضرورت ہے یا نہیں یا وہ عوامی ٹرانسپورٹ سے سفر کرسکتا ہے یا نہیں وغیرہ۔

پھر مصنوعی ذہانت سرکار کو یہ جاننے میں مدد دیتی ہے کہ کس شخص نے پوچھے گئے سوالات کا متضاد جواب دیا ہے یا پھر وہ جھوٹ بول رہا ہے جسکے بعد حکومت اس شخص سے سچ کا اعتراف کروالیتی ہے۔سرکار نے نتائج حاصل کرنے کیلئے پرائیویسی کے سبھی ضابطوں کو ختم کرتے ہوئے پرائیویٹ کمپنیوں کو فون، کمپیوٹر اور سی سی ٹی وی کیمروں کی بھی رسائی کرنے کی ہے ۔چینی ریاست میں ایک 'بلیک مرر-ایسک اینڈ ڈارک' اسی طرح کی سرگرمی اور برتاؤ کی نگرانی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔اگر آپ کا برتاؤ ریاست کے موافق ہو تو آپ پر نوازش ہوتی ہے لیکن آپ کا برتاؤ ناقابل قبول ہوا تو آپ ٹرین میں بھی نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔بھارت میں بھی اسکریننگ کے ذرئعہ کے بطور کرونا ایپ کو مشہور کیا جارہا ہے۔


مغرب کی طرف دیکھیں تو انگلینڈ اسکائی نیوز کا کہنا ہے”سرکار یہ نظر رکھ رہی ہے ک لوگ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے سے متعلق ہدایات پر عمل کرتے بھی ہیں یا نہیں اور ساتھ میں حکومت موبائل نیٹورک او ٹو کے ساتھ کام کرتے ہوئے گمنام موبائل فونز کی لوکیشن پر بھی نظر رکھتی ہے“۔اسرائیل بھی اس سلسلے میں ایک قدم آگے رہتے ہوئے موبائل نگرانی کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے لوگوں کو خود ان سے متعلق پیغامات بھیجتا ہے کہ وہ وائرس سے متاثر ہیں یا نہیں۔

فیس بُک اور گوگل وغیرہ جیسی سوشل میڈیا بھی اپنی طرف سے سرکار کو صارفین کی معلومات مفت فراہم کر رہی ہیں۔لہٰذا آپ کہیں بھی ہوںکورونا وائرس کے بحران نے آپ پر ہر وقت نگرانی کرنے کا ایک نیا بہانہ فراہم کردیا ہے۔اور یاد رکھیں یہ ”عوامی صحت اور خود آپ کی بھلائی کیلئے“ہے اور یقیناََ ہمارے پاس چھپانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔

چونکہ امریکہ-چین تجارتی جنگ اور مصنوعی ٹیکنالوجی پر مبنی ایک نئے افق میں داخل ہوچکی ہے۔دونوں ممالک سے آنے والی دواؤں کی قیمت مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔یہ دونوں ممالک مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی کے نظام اور طبی ٹیکنالوجی کی زبردست طاقت سے آگاہ ہیں۔حالانکہ انکی ”سلیکون ویلی“کے ساتھ کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن صدر ٹرمپ نے بھی کووِڈ19کو لیکر لوگوں کی نگرانی کیلئے بلیو ڈاٹ نامی کمپنی سے مدد لی ہے۔بس کچھ ہی وقت کی دیر ہے کہ جب سلیکون ویلی کے دیگر بڑے کھلاڑی جیسے مائیکروسوفٹ وغیرہ وائٹ ہاوس کے ساتھ یارانہ رشتہ قائم کرکے ایک ایسا اعلیٰ نظام بنانے میں لگ جائیں گے جو سرکار کو ہمارے دلوں کی دھڑکن تک سنایا کرے گا۔دنیا بھر میں ایمرجنسی قوانین متعارف کراکے ڈیٹا جمع کرنے کے کام کو تیز کیا جارہا ہے اور سرکار کو ”جنگ“ کے حالات جیسے اختیارات دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ایک بیان میں بلیو ڈاٹ کے کامران خان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ”ہمیں معلوم ہے کہ بر وقت معلومات فراہم کرنے کیلئے سرکاروں پر انحصار نہیں کیا جاسکتاہے“۔اس سے سرکاروں اور جمہوری اداروں پر ان ٹیکنوکریٹوں کے اس طبقہ کے اعتماد نہ کرنے کی عکاسی ہوتی ہے۔

”طاقت بد عنوانی پر ابھارتی ہے اور مطلق طاقت بالکل ہی بد عنوان ہوجاتی ہے“۔

میں کووِڈ19کو قابو کرنے کیلئے اپنی سرکاروں اور نجی کمپنیوں کی نیک نیتی پر شک نہیں کرتا ہوں مگر مصنوعی ذہانت پر مبنی جو نظام بنائے جارہے ہیں وہ ضرور انسانوں میں اضطرابیت کی لہر پیدا کرسکتا ہے اور ہم یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کووِڈ19کے دفع ہوجانے کے بعدبڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی کرنے کیلئے بنائے گئے اس نظام کیا کیا ہوگا؟کیا یہ ماس سرولنس 10.0ختم ہوجائے گا یا اسے ختم کردیا جائے گا یا پھر اسے مزید مضبوط بنایا جائے گا؟کیا دنیا کے شہری اس کی یقین دلاسکتے ہیں کہ اس نظام کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا؟

5جی ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر سرولنس کا یہ نظام انتہائی طاقتور ہوگا اور اسکا سردار یا مالک ہی ہمارے سیارے کا جاگیردار ہوگا۔اس حوالے سے مسٹر لنکولن کا یہ قول”تقریباََ سبھی مرد مشکلات کا سامنا کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ مرد کے کردار کو جانچنا چاہتے ہیں تو اسے طاقت دے دیں“ یاد آتا ہے۔اس قول کے تناظر میں ہمارے قائدین کا کیا ہوگا کہ جب وہ محض ایک بٹن دبا کر لوگوں کے دماغ تک میں گھس سکیں گے۔یہ نظام قابو کے ایک پنڈورا بکس کو کھولے گا اور ایک بار دنیا کے شہنشاہوں کے منھ کو اسکا خون لگا تو یہ کھیل ”ایسٹریکس اینڈ دی چاریٹ“ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔(کرونا وائرس لفظ2017میں شائع ہونے والی ایک کومک کی پریڈ سیٹنگ میں شامل ہے)۔

دنیا کے لوگوں کو بہت محتاط ہونا چاہیئے کہ کووِڈ19کے علاج تحت کہیں بڑا خطرہ چھپا ہوا ہے۔مصنوعی ذہانت پر مبنی بڑے پیمانے کی نگرانی کا نظام ہماری منظوری سے ہی ہماری زندگی میں سرائیت کر رہا ہے۔ایشیائی باشندے کے ساتھ ہورہی نسلی منافرت کی خبریں بڑھ رہی ہیں، ہم عالمی سطح پر افراتفری کا شکار ہو رہے ہیں۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کرونا ٹیکنالوجی کی مدد سے نفرت کا ایک اور ”ہولوکاسٹ“نہ کرنے پائے۔

عالمی جنگجوں میں لاکھوں لوگوں کے مارے جانے سے دنیا نے سبق سیکھ لیا ہے، غالباََ یہ کہ ٹیکنالوجی کو قتلِ عام کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔گیس چیمبروں سے لیکر نیوکلیائی بموں تک سبھی چیزیں اپنے وقت میں سائنس کی انتہا تھی لیکن ان تباہیوں کے باوجود بھی شیطانی کام کو انجام دیا جاتا رہا ہے۔ایلان مسک اور سٹیفن ہاکنگ جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی کے کھلاڑی دیگر سائنسدانوں کے ساتھ پہلے ہی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے دنیا کوخبردار کر چکے ہیں ۔ مسک نے یہاں تک کہا ہے کہ ”مصنوعی ٹیکنالوجی نیوکلیائی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک ہے“۔

ہمیں مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کے اندھا دھن استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے باالخصوص ان ایپلی کیشنز کو قابو کرنے کی ضرورت ہے جو ہماری پرائیویسی اور ہمارے حقوق چھین رہے ہیں۔جمہوریت، پرائیویسی اور انسانیت مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی کے نظام کے جیسے ”پرائیویٹ ٹیکنوکریٹک ٹولز“سے خوفزدہ ہیں۔کوئی بھی بحران اس ٹیکنالوجی کو ضابطوں سے آزاد کرنے کا بہانہ نہیں ہو سکتا ہے۔ہمیں ان کمپنیوں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ تعلق بنانے سے قبل معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا کے بحران کو ہر ضروری طریقے سے روکا جانا چاہیئے مگر ہمیں یہ احتیاط بھی کرنی چاہیئے کہ کہیں اس بحران کا علاج بڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی جیسے کسی نئی بیماری کے بیج ثابت نہ ہوجائیں۔آج کی ایمرجنسی میں دئے جانے والے اختیارات کا کل غلط استعمال کیا جاسکتا ہے لہٰذا یا سرکاریں مصنوعی ذہانت اور پرائیویٹ ڈیٹا کمپنیوں کیلئے قوانین بناکر ہماری آزادی کو تحفظ دیں ۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details