تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی دردناک موت کے ساتھ ساتھ، سماجی، معاشی اور سیاسی سطح پر بھی ان گنت خطرات لاحق ہیں، جن کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور آنے والے وقت میں ان سے ہونے والی تبدیلیوں سے دنیا کو ایک سمت ملے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر جاری لاک ڈاون سے کچھ معیشتیں مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گی، مالیاتی منڈی پہلے والی حالت میں کبھی بھی نہیں لوٹ پائے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس نقل وحرکت کو روکنے سے کچھ حکومتوں کو خودمختار بالادستی قائم کرنے میں مدد ملے گی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے نام پر شہری آزادیاں کمزورہوں گی۔
بہت سے لوگوں نے پہلے ہی عالمی سطح کی تنظیم جیسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کی اس بے مثال صحت کے بحران میں ہم آہنگی کی کمی کو لے کر سوال اٹھا چکے ہیں۔
بین الاقوامی امن ادارہ 'کارنیج انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس' کے سینئر رکن آرون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ یہ تبدیلیاں بہت وسیع اور غیر متوقع ہوں گی، انہوں نے کہا کہ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ قومی معیشتیں اس طوفان کے سامنے کب تک کھڑی ہیں اور حکومتیں اس خطرے سے نمٹنے میں کس حد تک کامیاب ہیں۔
چین جہاں سے یہ وبائی مرض جنم لیتا ہے اور پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے آج وہی فخر کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے اس وبا پر قابو پالیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتدائی دور میں ہی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور اب وہ ایک بڑے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔
مغربی ممالک کے مقابلے میں بھارت میں متاثرہ افراد کے سرکاری اعداد و شمار بہت کم ہیں لیکن آنے والے اور خراب دنوں کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔