ہر بحران کے دونوں یعنی مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ جب بھی کبھی کسی طرح کا عالمی بحران پیدا ہوجاتا ہے، دُنیا میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کووِڈ۱۹ کے خلاف اس وقت جاری لڑائی کسی عالمگیر جنگ سے کم نہیں ہے۔ فی الوقت دو سو ممالک اس وبا کو شکست دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اس وائرس سے مقابلہ کرتے ہوئے نئے اور سخت پالیسیاں اختیار کررہی ہیں۔ اسرائیلی تاریخ داں اور پروفیسر یووال ہراری نے پیش گوئی کی ہے کہ کووِڈ19کی وبا ختم ہوجانے کے بعد دُنیا ایسی نہیں ہوگی، جیسی اس سے پہلے تھی۔ انہوں نے اس ضمن میں وضاحت دی ہے کہ کس طرح سے دنیا بھر میں نئی تبدیلیوں کے آثار ابھی سے ہی دکھائی دینے لگے ہیں۔
وبا کے بعد حکومتیں عوامی تحفظ کے اقدامات کےلئے قواعد و ضوابط مقرر کریں گی اور پھر ان قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں گے۔ یہاں تک کہ خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کےلئے سرویلنس کیمروں کا بھی استعمال کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین، جنوبی کوریا اور اسرائیل جیسے ممالک نے اس ضمن میں ابھی سے ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ تائیوان میں غیر ملکیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کےلئے رسٹ بینڈز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ان رسٹ بینڈز کے ساتھ الیکٹرانک لوکیشن ٹریکنگ کا نظام منسلک کیا گیا ہے۔
جن ممالک میں کمزور جمہوری نظام ہے، ان کے لیڈروں نے آمرانہ رویے اختیار کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر آربین نے ملک کے آئین میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لئے خود کو مکمل اختیار تفویض کئے ہیں۔ اسی طرح فلپائین کے صدر روڈریگو ڈیوٹرٹ نے بھی مکمل اختیارات حاصل کرلئے ہیں۔ کولمبیا میں ایمرجنسی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ کئی ممالک میں سیول حکومتوں میں ملٹری کی مداخلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پاکستان میں فوج نے پہلے ہی کئی صوبوں میں مقامی حکومتوں کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں فوجی اہلکار لاک ڈاون نافذ کرانے کا کام کررہے ہیں۔ یہاں حکام نے شہریوں کے احتجاج اور جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ کئی جگہوں پر کووِڈ19 کی وجہ سے مجوزہ انتخابات موخر ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے اس سال مجوزہ صدارتی انتخاب ملتوی کردیا ہے۔اٹلی، شمالی میسیڈونیا، سربیا، سپین، برطانیہ اور اتھیوپیا میں صوبائی اور عام انتخابات میں تاخیرہوگئی ہے۔ کئی ممالک کی حکومتوں نے آن لائن ووٹر رجسٹریشن اور گھر بیٹھے ووٹ ڈالنے کا نظام متعارف کرانا شروع کردیا ہے۔ امریکا کے ایوان میں دو ممبران کے کووِڈ19 سے متاثر ہوجانے کے بعد اب یہاں آمنے سامنے کی میٹنگوں کے بجائے ورچیول (انٹرنیٹ کے ذریعے) میٹنگوں کے انعقاد کا رواج عام ہورہا ہے۔ ان مشکل حالات میں عام لوگوں نے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا شروع کردیا ہے۔ چین کے طلبا نے ووہان شہر کے اسپتالوں کے لئے سوشل میڈیا مومنٹ شروع کردی ہے۔
فلپائین کی یونیورسٹیوں اور شہری اداروں نے لاک ڈاون سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے فنڈز جمع کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ بھارت میں بھی صنعتوں کے مالکان، ملازم انجمنوں اور غیر سرکاری رضاکار تنظیمیں ضرورتمندوں کی مدد کررہے ہیں۔ کئی تنظیمیں بھکاریوں، ڈیلی ویجروں اور آوارہ کتوں کو خوراک فراہم کررہی ہیں۔
اب دُنیا میں ڈاکٹروں کے لئے نیا نطام تشخیص قائم کرنے کے آئیڈیاز پر کام ہونے لگا ہے تاکہ بیماری کی تشخیص اس کی علامات نمودار ہوجانے سے پہلے ہی کرنا ممکن ہوپائے۔ بیشتر ممالک اب ٹیلی میڈیسین پر انحصار کررہے ہیں۔ اس کی بدولت طبی عملے پر دباو کم ہورہا ہے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی بچت بھی ہورہی ہے۔ لوگ ہیلتھ انشورنس پر زیادہ پیسہ خرچ کرنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ممالک اپنے ہیلتھ کئیر نظام کو بہتر بنانے میں لگ گئے ہیں۔ بھارت میں بھی وینٹی لیٹرز اور اہم ادویات کی قلت پائی جارہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے حکومت نے متعلقہ صنعتوں کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔