دنیا بھر میں جہاں جہاں ایک نئی تبدیلی سے پہلے عوام میں ہلچل اور بے چینی کی کیفیات محسوس کی گئی، تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عوامی طاقت سے برپا تحریریں حکومت کے پرزور پروپیگنڈوں کے باوجود بھی اکثر و بیشتر کامیاب ہوئی ہیں۔
انقلاب فرانس ہو یا خود بھارت کی تحریک آزادی، ہر جگہ زبان نے اور اس کے مختصر ترین الفاظ نے اپنا بااثر کردار ادا کیا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج جاری ہیں، مظاہرین نعروں سے لکھی تختیاں لے کر اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ ان تختیوں میں اکثر تحریریں اردو شعرا کے اشعار سے مزین نظر آتی ہیں۔
حکومت نے جب سے شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی ہے، اس کے چند دن بعد سے ہی این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ جو اب بھی جاری ہیں۔
اطلاعات کے مطابق رواں برس دسمبر کی 13 تاریخ کو دہلی کی معروف مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے احتجاج شروع کیا، اس سے قبل ریاست آسام میں مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔
وہیں 15 دسمبر 2019 اتوار کی شب دہلی پولیس جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس کی لائبریری میں گھس کر طلبہ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔
اس واقعے کے بعد ملک گیر پیمانے پر طلبہ کی حمایت اور سی اے اے و این آر سی کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ ان مظاہروں میں اکثر ایسے اشعار سے لکھی تختیاں نظر آئیں جو اردو شعرا نے اپنے زمانے میں کہے تھے جو اس وقت کے حالات پر صادق آتے تھے۔ لیکن آج کی موجودہ صورتحال میں بھی وہ صادق نظر آتے ہیں۔
سیاسی جبر کی مخالفت کے لیے مشہور پاکستانی شاعر حبیب جالب کی معروف نظم 'دستور' اُس وقت وائرل ہونا شروع ہوئی جب جے این یو کے طلبہ نے بڑھی ہوئی ہاسٹل فیس کے خلاف مظاہرے شروع کیے۔
ششی بھوشن نامی طالب علم جو نابینا ہیں، انھوں نے جے این یو کے کیمپس میں مظاہرے سے پہلے ہی یہ نظم گائی تھی جس کا ویڈیو مظاہرے کے بعد وائرل ہوا، اور اس مظاہرے میں بھی یہ نظم گائی جاتی رہی۔
نظم ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
جامعہ کے مظاہروں میں بھی اردو اشعار کی تختیاں خوب نظر آرہی ہیں، بیسویں صدی کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظم 'بول' کا ایک مصرع خوب مقبول ہورہا ہے۔
شعر کچھ یوں ہے۔۔۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
فیض کی ایک اور نظم 'ہم دیکھیں گے' بھی خوب ان مظاہروں میں پڑھی جارہی ہے۔ لوگ انقلاب کے جذبات کو پرزور بنانے کے لیے ان نظموں و اشعار کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔ فیض کی مذکورہ نظم ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔