سپریم کورٹ نے چھ سال قبل کہا تھا کہ ' اچھی حکمرانی کا مطلب مجرموں کو جلد از جلد سزا دینا اور انہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کو یقینی بنانا ہے۔ اور سیاسی رہنما بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ ' جب ساری بد عنوانیوں کے باوجود وہ خود عوام کے حکمراں ہیں تو سزا کی گنجائش ہی کہاں رہتی اور سزا کسے دی جائے اور کون سزا دلائے'۔
سابق صدر جمہوریہ کے آر نارائنن نے کہا تھا کہ ' اگر سیاسی جماعتیں مجرمانہ شبیہ رکھنے والوں کو ٹکٹ نہ دینے کا عہد کرلیں تو مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے گا'۔
انہوں نے یہ سوالات بھی اٹھائے تھے کہ' کیا سیاسی جماعتیں اتنا بھی نہیں کرسکتیں؟۔ انہوں نے مزید ایسی جماعتوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان سیاسی جماعتوں کا شکریہ جو تمام مناسب مشوروں کو نظرانداز کرکے ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ آرائی کر رہی ہیں اور مجرموں کو اپنی پارٹیوں میں آنے کی دعوت دیتی ہیں۔ مزید انہوں نے اس بات کی بھی اسُ وقت نشاندہی کی تھی کہ ' موجودہ لوک سبھا 43 فیصد مجرمانہ پس منظر کے عوامی نمائندوں کے ساتھ پھل پھول رہی ہے'۔
ملک میں گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لئے مجرموں کو سزا دینا ضروری ہے۔ خاص طور پر اگر سیاسی جماعتیں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے رہنماؤں کو ٹکٹ نہیں دیتی ہیں، تو اس مسئلے کو کافی حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔
تلنگانہ ہائی کورٹ نے جمہوری نظام کو بدعنوانی اور مجرمانہ سیاست سے بچانے کے لئے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے مطابق ایک پہل کی ہے۔ جس میں 118 خصوصی عدالتوں، سی بی آئی اور اے سی بی عدالتوں میں عوامی نمائندوں کے خلاف زیر التوا مقدمات کے پیش نظر، ہائی کورٹ نے روزانہ سماعت کے لئے تیاریاں کرلی ہیں۔
اراکین پارلیمان کے خلاف سمن جاری نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے پولیس کے اعلی عہدیداروں کو مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
عدالت دوست وجے ہنساریہ نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ملک بھر میں سابقہ اور موجودہ اراکین اسمبلی کے خلاف 4 ہزار 442 مقدمات زیر التوا ہیں۔ جن میں 2556 مقدمات موجودہ اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی کے خلاف درج ہیں۔
انہوں نے کورٹ کو مزید یہ بھی بتایا تھا کہ ان میں سے 413 مقدمات ایسے ہیں جن میں عمر قید ہوسکتی ہے، ان میں 174 مقدمات کے ملزمان اراکین پارلیمان اور ایم ایل ایز ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے کرناٹک، مدھیہ پردیش، تمل ناڈو اور مغربی بنگال سمیت دو تلگو ریاستوں میں خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں لیکن تمام معاملات زیر التوا ہیں۔ توقع ہے کہ تلنگانہ ہائی کورٹ کے اقدام سے بدعنوان رہنماؤں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کا عزم پورا کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے سنہ 2018 میں ہدایت دی تھی کہ عوام کے اطلاعات کے حق کو بطور ہتھیار تبدیل کیا جائے اور مقابلہ کرنے والے امیدواروں کے تمام کارنامے بشمول ان کے مجرمانہ پس منظر کو اخبارات اور عوامی میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر مشتہر جائے۔
لیکن الیکشن کمیشن نے بڑے چینلز اور اخبارات کی وہ فہرست نہیں دی جس میں ان سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ اس کے ساتھ امیدواروں نے قانونی رکاوٹوں سے بچنے کے لئے مجرمانہ مقدمات کی معلومات کو عام کرنے کے لئے کم مشہور اخبارات اور چینلز پر 'آڈ ٹائم' کا استعمال کیا۔ ستمبر میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو ان بدعنوان سیاسی رہنماؤں سے آزاد کرنے کے لئے سخت قوانین وضع کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اگر ان ساری باتوں کو سمجھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ واقعتاً آئین کے دائرے میں رہ کر ایسی سیاست اور ان سیاسی رہنماؤں کو ختم کرنے کے لئے تنہا جنگ لڑ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا محض زبانی احترام کرتے ہوئے کانگریس پارٹی نے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں مجرمانہ پس منظر کے حامل 47 سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے ہیں، وہیں بی جے پی کے پاس موجودہ لوک سبھا میں مجرمانہ مقدمات والے 59 ممبران ہیں۔
اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ گذشتہ فروری میں سپریم کورٹ کے ذریعے دیا گیا یہ حکم کس حد تک مؤثر ہوگا، جس میں عدالت نے کہا تھا کہ پارٹی عوامی طور پر رائے دہندگان کو بتائے کہ انہوں نے مجرمانہ پس منظر کے حامل امیدواروں کا انتخاب کیوں کیا؟ جبکہ سیاسی جماعتیں خود غرض، دولت اور طاقت کے حامل مجرموں کو اچھی حکمرانی اور صاف ستھری سیاست کے لئے برائے نام احترام کے ساتھ جیتنے کی ترغیب دیتی ہیں، جس کی وجہ سے کامیاب ہونے والے بدعنوان سیاسی رہنما جمہوری اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے آئینی اداروں پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:
جبکہ پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں میں ان بدعنوان سیاسی رہنماؤں کو روکنے کے لئے پارلیمنٹ سخت قوانین وضع کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کم از کم عدلیہ کے نئے اقدام سے اگر ان رہنماؤں کے خلاف زیر التوا مقدمات کی جلد سماعت مکمل ہوجاتی ہے اور ہمارے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد مجرموں کے لئے مناسب سزا سے بحال ہوتا ہے، تو بھارتی جمہوریت کو راحت نصیب ہوگی۔