اردو کے ممتاز شاعر راحت اندوری آج ریاست مدھیہ پردیش کے اپنے آبائی شہر اندور میں انتقال کر گئے۔ انہیں کورونا متاثر قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ اندور کے اربندو ہاسپٹل میں داخل کرائے گئے تھے اور آخر کار دل کا دورہ پڑنے کے سبب ان کا انتقال ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس موقع پر پیش ہیں، ان کے کچھ ایسے اشعار جو عوام میں بہت زیادہ پسند کیے گئے:
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
۔۔۔۔۔
یہ وہ نظم تھی جس نے راحت اندوری کو ہر عام و خاص کی زبان پر لا دیا۔
راحت اندوری کے اشعار تغیل سے بالا تر ہوا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
میرے حُجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو، لے آؤ زمیں پر رکھ دو
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
۔۔۔۔۔۔۔
ستارے نوچ کر لے جاوں گا
میں خالی ہاتھ گھر جانے کا نئیں
وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف
ابھی ماحول مر جانے کا نئیں
۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا یہ اشعار ان کی موت کے بعد بہت درد انگیز محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی موت کا سبب کورونا وبا بن گئی اور وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ چلے گئے۔
طوفانوں سے آنکھ ملاو سیلابوں سے پیار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو
پھولوں کی دوکانیں کھولو خوشبو کا بیوپار کرو
عشق خطا ہے، تو یہ خطا ایک بار نہیں سو بار کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ کے پاس کبھی موم کو لا کر دیکھوں
ہو اجازت تو تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں
دل کا مندر بڑا ویران نظر آتا ہے
سوچتا ہوں تیری تصویر لگا کر رکھ دوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔