ماحولیات ، جنگلات اور آب وہوا کی تبدیلی کے وزیر مملکت بابل سپریو نے آج راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتا یا کہ آب وہوا کی تبدیلی کے بارے میں بین حکومتی پینل ( آئی پی سی سی ) کے ذریعے ستمبر 2019 میں جاری ’بدلتی ہوئی آب وہوا میں سمندر اور برفیلے حصے‘ کے بارے میں خصوصی رپورٹ کے متعلق تقریبا 1950 سے سمندر کی گرمی میں اضافہ ہونے، سمندر اور برف کے حصوں میں تبدیلی آنے اور بائیو جیو کیمیکل تبدیلیوں مثلا آکسیجن کی کمی پر اپنے رد عمل میں بہت سے سمندری جانداروں نے اپنی رہائش کی جگہ میں تبدیلی کی ہے اور موسمیاتی سرگرمیوں میں بھی تبدلی کی ہے۔
اس کے نتیجے میں خط استویٰ سے قطبین کی جانب جانداروں کی آبادیوں، بہتات اور ماحولیاتی نظاموں کے بائیو ماس پروڈکشن میں تبدیلی آئی ہے۔ لیکن کچھ سمندری ماحولیاتی نظاموں میں رہنے والے جانداروں پر ماہی گیری اور آب وہوا کی تبدیلی، دونوں کا اثر پڑا ہے۔
برف کے پگھلنے کی شرح ایک گلیشئر سے دوسرے گلیشئر تک خطے کے جغرافیائی محل وقوع اور آب وہوا کی تبدیلی کے مطابق علیحدہ علیحدہ ہے۔ بھارتی ہمالیہ کے مشرقی اور وسطی حصے کے گلیشئر جہاں مسلسل پیچھے ہٹ رہے ہیں، وہیں ہمالیہ کے مغربی حصے کے کچھ گلیشئرز کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں یا آگے بڑھ ر ہے ہیں۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمالیائی گلیشئر نمایاں مکانی اور خصوصی فرق کے ساتھ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ گلیشئر میں تبدیلیوں سے تازے پانی کی دستیابی خصوصی طور پر موسم گرما میں بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
ماڈلنگ مطالعوں کے مطابق اوپری سندھو، گنگا اور برہم پتر کے کناروں پر حرارت میں بنیادی مدت ( 1998-2007) کے مقابلے میں سنہ 2050 تک ایک سے دو ڈگری سیلسیز تک کا اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ ایسی صورت حال میں گلیشئر اور برف پگھل کر پانی بننے کی رفتار میں اضافہ ہوگا اور گنگا اور برہم پتر کے اوپری کناروں پر بارشوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ مجموعی طور پر کم سے کم سنہ 2050 تک پانی کے بہاؤ میں کوئی اہم اضافہ ہونے کی توقع نہیں ہے۔
حکومت بھارت کی ترقی کے راستے کے ماحولیاتی استحکام میں اضافہ کرنے اور ملک کے تمام خطوں میں آب و ہوا کی تبدیلی مقابلہ کرنے کے پیش نظر آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق قومی ایکشن پلان (این اے پی سی سی) نافذ کررہی ہے۔