کورونا وائرس کے حوالے سے ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینے والی بیماری کووڈ 19 کا سبب بننے والا موجودہ کورونا وائرس اپنی اصل وائرس سے تین سے چھ گنا زیادہ تیز رفتاری سے پھیلتا ہے، جو چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔
سائنسی جریدے 'سَیل' میں شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کووڈ 19 کی تبدیل شدہ شکل جو اس وقت دنیا کے لاتعداد انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، اس وبا سے کہیں زیادہ شدید اور مہلک ہے۔
متعدی بیماریوں کے امریکی ماہر انتھونی فاؤچی نے امریکہ کی میڈیکل ایسو سی ایشن کے جریدے کو اس نئی تحقیق کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا 'اس تحقیق کا ڈیٹا ہمیں بتاتا ہے کہ ایک ایسی میوٹیشن یا تغیر شدہ سیل پایا جاتا ہے جو وائرس کو بہتر انداز میں اپنے جیسی خصوصیات کے حامل خلیہ کے عمل کو دہرانے میں مدد دیتا ہے اور غالباً اس میں وائرل ہونے کی کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔'
فاؤچی گرچہ اس تحقیق کا حصہ نہیں ہیں تاہم وہ خود امریکہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے مسلسل خبردارکر رہے ہیں اور ابھی کچھ روز قبل ہی انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکہ میں کووڈ 19 کے کیسز کی یومیہ تعداد ایک لاکھ تک بھی ہو سکتی ہے۔
چین میں کورونا کی نئی لہر سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کورونا ٹسٹ کا انتظام ملک گیر سطح پر کیا ہے۔
اس نئی تحقیق کے بارے میں انتھونی فاؤچی نے مزید کہا 'ہمارے پاس تاہم اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم کسی ایک فرد کی حالت کو مزید خراب کرنے کا باعث بن رہی ہے، ایسا ضرور لگ رہا ہے کہ اس وائرس میں قوت مزاحمت زیادہ ہے اور یہ اپنے اثرات کو دوہرانے کی کہیں زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں منتقلی کی صلاحیتیں بھی کہیں زیادہ ہیں۔'
فاؤچی نے یہ بھی کہا کہ ان سب امکانات کی تصدیق کی فی الحال کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ نئی تحقیق امریکی ریاست نیو میکسیکو میں لاس الموس نیشنل لیبارٹری اور نارتھ کیرولینا کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے کووڈ-19 جینومکس برطانیہ ریسرچ گروپ کی شراکت سے کی، جس میں ان تمام سائنسدانوں نے پتہ لگایا کہ اس وائرس کی موجودہ شکل 'ڈی سکسون فور جی' کی پروٹین میں ایک چھوٹی لیکن اہم تبدیلی آئی ہے، جو اس وائرس کی سطح پر موجود ہے اور یہ انسانی خلیوں پر آسانی سے حملہ کر کے انفیکشن کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن رہی ہے۔
اپریل میں اس تحقیق کے ابتدائی نتائج پیش کیے گئے تھے، تاہم ناقدین نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ میوٹیشن بذات خود اس وائرس کے زیادہ مؤثر ہونے کا سبب ہے، ان ناقدین نے کہا تھا کہ اس میں دیگر عوامل کا کردار بھی ہو سکتا ہے، اس کے بعد ریسرچ ٹیم نے مزید تجربات کیے اور برطانیہ کے ایک اسپتال میں کووڈ۔ 19 کے 999 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔
محققین نے مشاہدہ کیا کہ وہ مریض جن کی حالت بدل رہی تھی، ان میں وائرس کے ذرات پائے گئے تھے لیکن ان ذرات کا ان مریضوں کی بیماری کی شدت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا، تاہم لیبارٹری تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ 'مختلف یا متغیر خلیات' میں انسانی خلیوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت تین سے چھ گنا تک زیادہ ہے۔
فی الحال اس تحقیق کے نتائج کو صرف 'امکانی' ہی سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ اس طرح کے تجربات کسی وبائی مرض کے محرکات کی درست طور پر وضاحت نہیں کرتے۔
اس وقت کورونا وائرس اپنی متغیر شکل میں بہت زیادہ گردش میں ہے، اسلیے موجودہ حالت میں اسے زیادہ 'متعدی' سمجھا جا رہا ہے، لیکن یہ ممکن ہے کہ انسانوں کے مابین اس جرثومے کی 'منتقلی' کم ہو۔
ژیل اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہر وائرالوجسٹ نیتھن گروباف، جو اس مطالعہ میں شامل نہیں تھے، نے کہا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج سے عام لوگوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، ان کے بقول'اگرچہ اب بھی یہ جاننے کے لیے اہم مطالعات کی ضرورت ہے کہ آیا اس سے مؤثر انداز میں ادویات یا کسی ویکسین کی تیاری پر کوئی اثر پڑے گا، ہم یہ توقع نہیں کر رہے کہ 'ڈی سکس ون فور جی' کورونا وائرس کے بارے میں ہمارے حفاظتی اقدامات میں کوئی تبدیلی لائے گا یا انفرادی کیسز میں انفیکشن کو بدتر بنا دے گا۔