کووِڈ19 نامی یہ وبا انتہائی منفی اور خطرناک نتائج کی حامل ہے۔ اس وبا کے پھیلاو کے بیچ میڈیا کے رویے نے بھارت کی سماجی ہم آہنگی اور اس کی داخلی سیکورٹی کو بھی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ سنہ 1927 میں قائم کی گئی تبلیغی جماعت کی جانب سے مارچ کے وسط میں نظام الدین میں منعقد کئے گئے اجتماع کو لیکر بھارت میں ایک خوف پیدا ہوگیا ہے کیونکہ اس اجتماع میں شامل کئی غیر ملکی شہریوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ دراصل مارچ کے آخر اور اپریل کے ابتدائی دنوں میں بھارت کے مختلف خطوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ کئئ ایسے معاملات سامنے آئے، جن کا لنک نظام الدین میں منعقدہ تبلیغی اجتماع کے شرکا کے ساتھ جڑا ہوا پایا گیا۔ میڈیا میں اس خبر کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی ۔
سال 2020 میں شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے کوریج کے دوران بھی میڈیا کے ایک طبقے نے بدقسمتی سے فرقہ وارانہ رویے اور مسلم مخالف جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع سے متعلق بھی بعض ٹی وی چینلوں نے اپنی رپورٹنگ میں جانبداری کا مظاہر ہ کیا۔ اس کی وجہ سے ماحول میں فرقہ واریت پھیلنے لگی ۔ اپریل کے ابتدائی دنوں میں سوشل میڈیا پر ’تبلیغی وائرس‘ اور ’کورونا جہاد‘ جیسی اصطلاحوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ یہ تک کہا گیا کہ وائرس در اصل چین کے شہر ووہان سے نہیں بلکہ نظام الدین سے نمودار ہوا ہے۔ کئی ٹی وی چینلوں اور نیوز ایجنسیوں نے یہ جھوٹی خبر بھی پھیلادی کی تبلیغی جماعت کے ارکان، جنہیں علاج و معالجے کے لئے اسپتال لے جایا گیا تھا ، انہوں نے طبی عملے کے ساتھ غیر شائستہ سلوک کیا ہے۔ ایک چینل نے سٹنگ آپریشن کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ تبلیغی جماعت نے جان بوجھ کر 24 مارچ کو شروع کئے گئے لاک ڈاون کی خلاف ورزی کی ہے۔ بعد ازاں اس طرح کے رپورٹس کو بے بنیاد پایا گیا اور تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ در اصل مسلم فرقے کو بدنام کرنے کےلئے جان بوجھ کر یہ جھوٹی خبریں پھیلائی گئی ہیں۔تبلیغی جماعت کی غلطی کے نتیجے میں صحت عامہ پر اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ سے پورے مسلم فرقے کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا کے ایک طبقے نے بھونڈے طریقے سے یہ کوششیں کیں۔
حالانکہ میڈیا کے اس جانبدارانہ رویہ کے باوجود یہ حقیقت بھی ہے کہ تبلیغی جماعت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ کووِڈ19 کے حوالے سے اطلاعات عام ہوچکی تھیں، جب اس جماعت نے اجتماع منعقد کرکے اپی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم مودی نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر اجتماعات اور جلسے جلوسوں کے انعقاد سے احتراز کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں کو اس ضمن میں ایک ’لکشمن ریکھا‘ کے دائرے میں رہنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ تبلیغی اجتماع میں شرکا ایک محدود جگہ پر بڑی تعداد میں جمع ہوجانا صحت عامہ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف اقدام تھا۔ یہ ان قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہے ، جو کووِد۱۹ کے حوالے سے متعارف کرائے گئے تھے۔
حالانکہ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ پولیس نے اس طرح کے اجتماع کو منعقد کرنے کی اجازت کیوں دے دی تھی۔ اس سوال کا جواب ایک غیر جانبدار تحقیق کے بعد ہی مل سکتا ہے۔ بہرحال قانونی کارروائی کی گئی اور تبلیغی جماعت کے لیڈر مولانا سعد کوسنگین الزامات کے تحت انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 304 کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔