اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

تبلیغی جہاد اور میڈیا کا جانبدارانہ رویہ

سوسائٹی فار پالیسی سٹیڈیز کے ڈائریکٹر سی ادئے بھاسکر نے تبلیغی جماعت پر کی گئی کچھ ٹی وی چینلوں کی جانبدارانہ رپورٹنگ اور فرقہ وارانہ ماحول پھیلانے کے تعلق سے کہا ہے میڈیا کے اس طبقے کا یہ عمل قومی مفاد کے خلاف بھی ہے اور آئین کی روح سے متصادم بھی۔ دوسروں کے تئیں عدم برداشت اور مخالفین کے خلاف نفرت انگیزی اور ہندو توا ایجنڈا جیسی چیزیں بھارت کے لئے وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں لیکن ۔میڈیا کے اس جانبدارانہ رویہ کے باوجود حقیقت یہ بھی ہے کہ تبلیغی جماعت نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔

تبلیغی جہاد اور میڈیا کی جانبدار
تبلیغی جہاد اور میڈیا کی جانبدار

By

Published : Apr 18, 2020, 5:09 PM IST

کووِڈ19 نامی یہ وبا انتہائی منفی اور خطرناک نتائج کی حامل ہے۔ اس وبا کے پھیلاو کے بیچ میڈیا کے رویے نے بھارت کی سماجی ہم آہنگی اور اس کی داخلی سیکورٹی کو بھی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ سنہ 1927 میں قائم کی گئی تبلیغی جماعت کی جانب سے مارچ کے وسط میں نظام الدین میں منعقد کئے گئے اجتماع کو لیکر بھارت میں ایک خوف پیدا ہوگیا ہے کیونکہ اس اجتماع میں شامل کئی غیر ملکی شہریوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ دراصل مارچ کے آخر اور اپریل کے ابتدائی دنوں میں بھارت کے مختلف خطوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ کئئ ایسے معاملات سامنے آئے، جن کا لنک نظام الدین میں منعقدہ تبلیغی اجتماع کے شرکا کے ساتھ جڑا ہوا پایا گیا۔ میڈیا میں اس خبر کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی ۔

سال 2020 میں شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے کوریج کے دوران بھی میڈیا کے ایک طبقے نے بدقسمتی سے فرقہ وارانہ رویے اور مسلم مخالف جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع سے متعلق بھی بعض ٹی وی چینلوں نے اپنی رپورٹنگ میں جانبداری کا مظاہر ہ کیا۔ اس کی وجہ سے ماحول میں فرقہ واریت پھیلنے لگی ۔ اپریل کے ابتدائی دنوں میں سوشل میڈیا پر ’تبلیغی وائرس‘ اور ’کورونا جہاد‘ جیسی اصطلاحوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ یہ تک کہا گیا کہ وائرس در اصل چین کے شہر ووہان سے نہیں بلکہ نظام الدین سے نمودار ہوا ہے۔ کئی ٹی وی چینلوں اور نیوز ایجنسیوں نے یہ جھوٹی خبر بھی پھیلادی کی تبلیغی جماعت کے ارکان، جنہیں علاج و معالجے کے لئے اسپتال لے جایا گیا تھا ، انہوں نے طبی عملے کے ساتھ غیر شائستہ سلوک کیا ہے۔ ایک چینل نے سٹنگ آپریشن کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ تبلیغی جماعت نے جان بوجھ کر 24 مارچ کو شروع کئے گئے لاک ڈاون کی خلاف ورزی کی ہے۔ بعد ازاں اس طرح کے رپورٹس کو بے بنیاد پایا گیا اور تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ در اصل مسلم فرقے کو بدنام کرنے کےلئے جان بوجھ کر یہ جھوٹی خبریں پھیلائی گئی ہیں۔تبلیغی جماعت کی غلطی کے نتیجے میں صحت عامہ پر اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ سے پورے مسلم فرقے کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا کے ایک طبقے نے بھونڈے طریقے سے یہ کوششیں کیں۔

حالانکہ میڈیا کے اس جانبدارانہ رویہ کے باوجود یہ حقیقت بھی ہے کہ تبلیغی جماعت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ کووِڈ19 کے حوالے سے اطلاعات عام ہوچکی تھیں، جب اس جماعت نے اجتماع منعقد کرکے اپی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم مودی نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر اجتماعات اور جلسے جلوسوں کے انعقاد سے احتراز کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں کو اس ضمن میں ایک ’لکشمن ریکھا‘ کے دائرے میں رہنا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ تبلیغی اجتماع میں شرکا ایک محدود جگہ پر بڑی تعداد میں جمع ہوجانا صحت عامہ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف اقدام تھا۔ یہ ان قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہے ، جو کووِد۱۹ کے حوالے سے متعارف کرائے گئے تھے۔

حالانکہ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ پولیس نے اس طرح کے اجتماع کو منعقد کرنے کی اجازت کیوں دے دی تھی۔ اس سوال کا جواب ایک غیر جانبدار تحقیق کے بعد ہی مل سکتا ہے۔ بہرحال قانونی کارروائی کی گئی اور تبلیغی جماعت کے لیڈر مولانا سعد کوسنگین الزامات کے تحت انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 304 کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

تاہم اس دوران ایک سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ اس پندرہواڑے، جس کے دوران نظام الدین میں تبلیغی جماعت کا اجتماع منعقد کیا گیا تھا، ملک کے مختلف حصوں میں کئی دیگر تقریبات بھی معنقد ہوہیں ، جن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شمولیت کی تھی۔ یہ تقریبات یہ تو سیاسی نوعیت کی تھیں یا پھر ہندو مذہب سے متعلق تھیں۔ لیکن ان تقریبات کے حوالے سے میڈیا نے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی میڈٰیا نے ان تقریبات کو لیکر اس رویہ کا مظاہرہ کیا، جس کا مظاہرہ اس نے تبلیغی جماعت کے اجتماع کو لیکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر بھوپال میں حکومت کی تبدیلی کے موقعے پر سیاسی تقریب ہوئی۔ لکھنو میں رام نومی کے حوالے سے جشن منایا گیا۔تروپاٹی تھیروا ناتھا پورم میں مذہبی تقریب کا انعقاد کیا گیا اور حال ہی میں کرناٹک کے چھتر پور میں بھی ہندوؤں کی ایک مذہبی تقریب منعقد ہوئی۔

عوامی صحت عامہ کی حفاظت ایک قومی چیلنج ہے۔ کووِڈ19 اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ وائرس بلا امتیاز پھیل رہا ہے۔ وہ کسی مخصوص مذہب، نسل اور قومیت کا امتیاز نہیں کرتا ہے۔ یہ وائرس امیر و غریب میں کوئی تفریق کئے بغیر سب کو متاثر کررہا ہے۔ اس لئے اس موضوع پر کسی مخصوص فرقے کے خلاف پوزیشن اختیار کرنا غیر منتقی ہے۔

یہ افسوس کی بات ہے کہ حالیہ برسوں میں میڈیا کے ایک طبقے نے وطن پرستی کے نام پر نفرت انگیزی شروع کررکھی ہے۔ میڈیا کے اس طبقے کا یہ عمل قومی مفاد کے خلاف بھی ہے اور آئین کی روح سے متصادم بھی۔ دوسروں کے تئیں عدم برداشت اور مخالفین کے خلاف نفرت انگیزی اور ہندو توا ایجنڈا جیسی چیزیں بھارت کے لئے وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس طرح کی آئیڈیالوجی ہندوازم کی اساس سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت کے لاکھوں لوگ ہندو مذہب کے پیرو کار ہیں لیکن وہ اس طرح کے نظریات کے حامل نہیں ہیں، جس طرح کے نظریات میڈیا کی وساطت سے پھیلائے جارہے ہیں۔

تبلیغی جماعت برصغیر اور مسلم دُنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اصل دین کی طرف لے جارہی ہے۔ حالانکہ خود کئی مسلمان اس جماعت کی مخالفت کررہے ہیں اور اسے ’تکلیفی جماعت‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ مسلم طبقے کو دہشت گردی اور کورونا وائس کے ساتھ جوڑنا ایک نفرت انگیز طریقہ کار ہے۔ اس رویہ کی وجہ سے بھارت خطرناک صورتحال کی طرف جا سکتا ہے۔ گمراہ کرنے والا میڈیا سماج کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ اس معاملے میں بھارت کو ایک لکشمن ریکھا کھینچنی ہوگی۔

( سی اُدئے بھاسکر، سوسائٹی فار پالیسی سٹیڈیز کے ڈائریکٹر ہیں)

ABOUT THE AUTHOR

...view details