جمیعت العلماء ہند کی جانب سے داخل کی گئی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل سے کہا کہ وہ عرضی گذار کو بتائے کہ اس تعلق سے حکومت نے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک قانون کی دفعات 19 اور 20 کے تحت اب تک ان چینلز پر کیا کارروائی کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے جمیعت العلماء ہند کو براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا۔
عدالت نے سالیسیٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کو کہا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے جس سے لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ ہوسکتا ہے لہٰذا حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینا ضروری ہے۔
سینیئر وکیل دوشینت دوے نے جمیعت العلماء ہند کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور عدالت کو اس پر خصوصی توجہ دینا چاہئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو اس تعلق سے علم ہے۔
واضح رہے کہ '13 اپریل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے جمیعت العلماء کی جانب سے داخل پٹیشن مرکزی حکومت کو مہیا کرانے کے ساتھ ساتھ حکومت کونوٹس جاری کرتے ہوئے 15 جون تک جواب داخل کرنے کو کہا نیز براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو بھی فریق بنانے کاحکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی حالانکہ آج امید کی جارہی تھی چیف جسٹس اس تعلق سے کچھ فیصلہ صادر کریں گے۔
جمیعت العلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے آج کی پیش رفت پر اپنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ معزز عدالت آج باقاعدہ کوئی فیصلہ صادرکرے گی تاہم انہوں نے جس طرح کیبل ٹی وی نیٹ ورک قانون کی دفعات 19 اور 20 کے تحت ٹی وی چینلوں کے خلاف کاروائی کو لے کر مرکز اور پریس کونسل آف انڈیا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس پر جواب طلب کیا ہے وہ ایک انتہائی امید افزا بات ہے اور جمیعت العلماء ہند کی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جمیعت العلماء ہند یہ قانونی لڑائی ہندو مسلم کی بنیاد پر نہیں لڑرہی ہے بلکہ اس کی یہ لڑائی ملک اور اس قومی یکجہتی کے لیے ہے جو ہمارے آئین کی بنیادی روح ہے اور ملک کی آئین نے ہمیں جو اختیاردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کے معاملے میں ہم اپنے اسی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت کا رخ کرتے ہیں جہاں سے ہمیں انصاف بھی ملتا ہے اس اہم معاملہ میں بھی ہماری قانونی جدوجہد تب تک جاری رہے گی جب تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آجاتا۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ 'فیصلہ میں اگرچہ تاخیر ہورہی ہے لیکن میڈیا نے پچھلے کچھ ماہ کے دوران اپنی اشتعال انگیزیوں سے نفرت کا جو ماحول پیدا کیا تھا، کورونا وائرس کے حملہ کے بعد لاک ڈاؤن میں پید اہوئی صورتحال میں اس ملک کے مسلمانوں نے غریبوں، مزدوروں اور مفلوک الحال لوگوں کی مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر بے مثال خدمت کرکے اس نفرت کو محبت میں تبدیل کردیا ہے۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ 'ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عمل سے نہ صرف یہ باور کرادیا کہ وہ ملک کے امن پسند شہری ہیں بلکہ یہ بھی بتادیا کہ ہر مصیبت کی گھڑی میں وہ ایک محب وطن شہری کی طرح اس ملک کی عوام کی بے لوث خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'مسلمانوں کا یہ عمل ملک کے متعصب میڈیا کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے جس کی گونج وہ تادیر محسوس کرتے رہیں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بے سہارا مزدوروں اور غریبوں کی مسلم طبقہ نے جگہ جگہ اس رمضان کے مہینہ میں بھی اپنی بھوک اور پیاس کو نہ محسوس کرتے ہوئے جس طرح دھوپ اور جسم کوجھلسا دینے والی لو میں مددکی اس کی مثال کم از کم ملک کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔
ارشدمدنی نےکہا کہ ہم امن پسند شہری ہیں اور ملک کے آئین و قانون کے ساتھ ساتھ عدالت پر بھی اعتماد کرتے ہیں اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ اس معاملہ میں عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے گا وہ انتہائی مثبت اور دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔
آج عدالتی کاروائی کے بعد گلزار اعظمی نے کہا کہ حالانکہ سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا لیکن عدالت کا حکومت سے جواب طلب کرنا مثبت بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو جلد ہی فریق بنا کر اس معاملے کی سماعت جلد ہو اس تعلق سے کوشش کرنے کی ہدایت ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کو دی گئی ہے۔
آج چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس رشی کیش رائے پر مشتمل تین رکنی بینچ کو سینیئر ایڈوکیٹ دوشینت دوے (صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن) نے بتایا کہ تبلیغی مرکز کو بنیاد بنا کر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دل آزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔