ایودھیا کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں آج بھی جاری ہے، آج سپریم کورٹ میں سماعت کا 17واں روز ہے۔
دراصل سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔
اس سے قبل مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ایودھیا کیس سپریم کورٹ میں آخری مرحلہ میں ہے، روزانہ سماعت ہورہی ہے اور 16 نومبر تک فیصلہ آجانے کی امید ہے۔
مولانا ولی رحمانی نے آج جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ بابری مسجد کا معاملہ بلاشبہ بھارتی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے جس کے مقدمہ کی عمر طویل ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت جیسے جمہوری اور سیکولر ملک کا امتحان بھی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ بابری مسجد1528ء سے 22دسمبر 1949ء تک پورے طور پر مسجد رہی اور اس میں پنج وقتہ نماز پابندی سے ہوتی رہی۔
مولانا نے دعوی کیا تھا کہ اس قضیہ کی ابتداء فرقہ پرست طاقتوں نے باقاعدہ 22 دسمبر 1949ء کی رات کے اندھیرے میں شری رام اور شری لکشمن جی کی مورتی رکھ کر کی اور پہلی مرتبہ 1949ء میں ملک کو معلوم ہوا کہ رام جی مسجد کے گنبد کے نیچے کی جگہ پر پیدا ہوئے تھے، اس کے بعد عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے لیکن افسوس کہ عدالتوں سے جمہوری تقاضوں کی تکمیل نہ ہوسکی، سنی وقف بورڈ اترپردیش نے بھی 1961ء میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر ہوا کچھ نہیں، جو مسلمان پنج وقتہ نماز ادا کرتا تھا اسکے داخلہ پر پابندی لگادی گئی۔
انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے متعلق جو پیروی ہورہی ہے وہ قابل اطمینان ہے اور ججوں کی طرف سے جو مختلف تبصرے سامنے آرہے ہیں وہ بھی مناسب ہیں۔
ولی رحمانی نے کہا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملکیت و حقیت کے مقدمات کے ساتھ لبراہن کمیشن میں بھی زوردار پیروی کی اور آج بھی حقیت کا مقدمہ جو رائے بریلی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ ماہر قانون دانوں کی نگرانی میں اسکی پیروی کررہا ہے۔اس کے علاوہ بورڈ آثارقدیمہ کی طرف سے کھدائی کے دوران بھی شامل و شریک رہا۔