اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'سنی سینٹرل وقف بورڈ نظرثانی کی اپیل دائر نہیں کرے گا'

اترپردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی نے ایودھیا کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

سنی سینٹرل وقف بورڈ نے ایودھیا کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

By

Published : Nov 9, 2019, 5:47 PM IST


ایودھیا کیس کے اہم فریق سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ کی طرف سے اس کیس میں اب نظرثانی کی کوئی اپیل نہیں کی جائے گی۔

سنی سینٹرل وقف بورڈ نے ایودھیا کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

ظفر احمد فاروقی نے میڈیا کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایودھیا کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلے خیرمقدم کرتے ہیں اور بورڈ نظرثانی داخل کرنے کا کوئی منصونہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب اگر کوئی وکیل یا کوئی ادارہ نظرثانی کی اپیل داخل کرتا ہے تو اسے سنی سینٹرل وقف بورڈ کی طرف سے نہ مانا جائے۔

اس سے قبل مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

بابری مسجد ملکیت مقدمہ سے وابسہ ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں تضاد پایا جاتا ہے۔'مسجد کا کوئی نعم البدل نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ سبھی مسلم فریقوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جائے گی اور ریویو کا ہمیں حق حاصل ہے۔

ظفریاب جیلانی نے ایودھیا فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہمارے کئی نکات کو مانا ہے جبکہ بعض معاملات پر تضاد پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ کسی کی جیت ہے اور نہ کسی کی ہار ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اس کے بعد تمام مسلم فریقوں سے مشاورت کے بعد کوئی قطعی فیصلہ کیا جائے گا۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ظفریاد جیلانی نے مزید کہا کہ عدالت کے فیصلہ سے ہم مطمئن نہیں ہیں اور اس فیصلہ کے خلاف 30 دن کے اندر نظرثانی کی درخواست کو داخل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت کے سیکولر کردار پر پورا بھروسہ ہے اور ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں جبکہ ہم یہ ہرگز نہیں مانتے کہ یہ فیصلہ کسی کے دباؤ میں کیا گیا ہے۔ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے چند نکات پر اعتراض ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں تضاد پایا جاتا ہے جس سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے لیکن ہم عدالت کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں اور ملک میں قانون کی بالادستی کو فروغ دینے کے لیے ہم کوشاں ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details