اردو

urdu

مجتبی حسین کے انتقال پر پروفیسر سراج اجملی سے خصوصی گفتگو

اردو کے ممتاز مزاح نگار مجتبی حسین کے انتقال پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے پروفیسر سید سراج الدین اجملی سے خصوصی گفتگو۔

By

Published : May 27, 2020, 7:01 PM IST

Published : May 27, 2020, 7:01 PM IST

sdf
sdf

اردو کے ممتاز مزاح نگار مجتبی حسین کا 80 برس کی عمر میں آج صبح حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے حیدرآباد میں انتقال ہو گیا۔

ان کے سانحہ ارتحال سے ادبی دنیا نے ایک عظیم مزاح نگار اور بہترین ادیب کو کھو دیا۔ مجتبیٰ حسین 15 جولائی سنہ 1936 کو بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے گلبرگہ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور سنہ 1956 میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کیا، جوانی سے ہی انہیں طنز و مزاح کی تحریروں کا ذوق تھا، جس کی تکمیل کیلئے روزنامہ سیاست سے وابستہ ہوگئے اور وہیں سے ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔

مجتبیٰ حسین کی مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انہیں 10 سے زائد ایوارڈ ملے ہیں۔ ان کی طویل خدمات کے اعتراف میں کرناٹک کی گلبرگہ یونیورسٹی نے سنہ 2010 میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کی۔

ویڈیو

سوال: اردو کے معروف طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ان کے انتقال سے اردو حلقے میں کتنا بڑا خلا پیدا ہوا ہے ؟

جواب: مجتبی صاحب کا انتقال ہم سب کے لیے صدمے کی بات ہے۔ یقینا اردو کے طنزیہ اور ادب کا ایک اہم ترین ستون منہدم ہوگیا اور ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ ہمیں مجتبیٰ صاحب کے انتقال کی خبر ملتے ہیں پہلے تاثر یہ تھا بھارت میں طنز و مزاح کا شاید سب سے بڑا نام زیر زمین سو گیا۔

سوال: آپ کی نظر میں ان کا کیا مقام تھا ؟

جواب: ہم تو طالب علم ہیں اور اردو طنز و مزاحیہ ادب کے جتنے طلبا اور قارئین ہیں ان سب کی نگاہ میں جو برصغیر میں انگلیوں پر گنے جانے والے طنزو مزاح نگار ہیں، ان میں مجتبیٰ صاحب کا اپنا منفرد مقام تھا۔

سوال: اردو کی نئی نسل خاص کرکے اردو میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ مجتبٰی حسین کی مزاح نگاری سے کیا کچھ سیکھ سکتے؟

جواب: مجتبیٰ صاحب سے سیکھنے کے لئے کس طرح نثر کو برجستہ اور بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے کس طرح نثر اور نثری اظہار میں شگفتگی سے ایک دور اثر اور دیرپا اثر قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام قلم گاہوں کو مجتبیٰ حسین کی تحریروں سے سیکھنا چاہیے، بہت لمبی فہرست ہے 20 سے 22 کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا ایک سفرنامہ 'جاپان چلو جاپان چلو' بڑا مشہور ہوا تھا۔

سوال: آپ کی آخری ملاقات مجتبیٰ حسین سے کب اور کہاں ہوئی؟

جواب: زمانہ طالب علمی میں دو چار ملاقاتیں ان سے دہلی میں ہوئیں۔ مجتبیٰ صاحب سے اکثر ادبی جلسوں میں ملاقات ہوتی وہ استاد تھے، بزرگ تھے، سینئر تھے، ہم لوگ بہت چھوٹے تھے بہرحال سلام کرتے تھے تو وہ شفقت اور محبت سے جواب دیتے تھے باتیں بھی کرتے تھے۔ کبھی کبھی ادبی جلسوں اور سیمینارز میں تھوڑی بہت گفتگو بھی ہو جاتی تھی۔

سوال: کیا مجتبی حسین کبھی علیگڑھ تشریف لائے؟

جواب: مجھے لگتا ہے میری موجودگی میں مجتبیٰ صاحب علیگڑھ تشریف نہیں لائے۔ میرے حافظے میں جتنی ملاقاتیں ہیں وہ سب دہلی کے ادبی جلسوں میں جامعہ میں اردو گھر میں اور کبھی ایوانِ غالب میں ہیں۔

سوال: آپ مجتبیٰ حسین کی شخصیت کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟

جواب: پچھلے دو تین مہینے کے اندر طنزومزاح کے حوالے سے دو بڑے نام ہم سے بچھڑ گئے شاعری کے حوالے سے اسرار جامعی اور نثر کے حوالے سے مجتبیٰ حسین۔ سویرے سویرے ایک دم سے جب یہ خبر مجھے ملی تو ایک شعر میری زبان پر آیا۔

طنز و مزاح پر ہیں کڑے دن میاں سراج

اسرار جمائی ہیں نہ اب مجتبی حسین۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details