اس وقت لوک سبھا میں ممبران کی کُل تعداد543ہے۔ پارلیمنٹ کے اس ایوان زریں کے لیے اراکین کی یہ تعداد سنہ 1977 میں مقرر کی گئی تھی۔ جب کہ سیٹوں کی تعداد کا تعین سنہ 1971 کی مردم شماری کے تناظر میں کیا گیا ۔
سنہ 1971 کی مردم شماری کے مطابق اُس وقت بھارت کی آبادی 55کروڑ تھی جبکہ آج یہ بڑھ کر 130کروڑ ہوگئی ہے۔ اسی طرح تب سے ہر پارلیمانی حلقہ انتخاب میں رائے دہندگان کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے اور منتخب نمائندگان اُن کی ضروریات کے تقاضے پورے نہیں کر پارہے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت کے مقابلے میں کم آبادی والے ممالک میں بھی منتخب نمائندگان کی تعداد مقابلتاًزیادہ ہوتی ہے۔
ہاؤس آف کامن میں برطانیہ کے650ممبران پارلیمنٹ ہیں اور کینیڈا کے 433ممبران ہیں۔امریکہ کے کانگریس میں اراکین کی تعداد 535ہے۔ان ممالک میں منتخب نمائندگان کی تعداد شرح آبادی کے لحاظ سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
لوک سبھا کا بنیادی کام قوانین سازی ہے ۔ پارلیمنٹ مرکز اور ریاستوں سے متعلق تمام معاملات پربل پاس کرتا ہے۔لیکن ہمارے یہاں پارلیمنٹ کا کام اور بھی زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ ہمارے ممبران پارلیمنٹ مرکزی افسران کے ساتھ مختلف پروگراموں اور اسکیموں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اس لیے رائے دہندگان کی آبادی کے لحاظ سے منتخب ممبران کی تعداد کافی اہمیت کی حامل ہے۔
بعض پارلیمانی حلقوں میں آبادی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور بعض میں نہیں ہوا ہے ۔ اس لیے منتخب نمائندگان سے جڑی آبادیوں کے حوالے سے بھی عدم ِ مساوات ہے۔راجیہ سبھا کے ممبران کی تعداد میں بھی تب سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، جب سے یہ معرض وجود لائی گئی ہے۔
سابق صدرِ ہند پرنب مکھرجی نے بھی لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد بڑھا کر اسے 1000کرنے کا مشورہ دیا تھا۔بھارت کے پارلیمانی نظام کو زیادہ جمہوری اور عوام دوست بنانے کے لیے نمائندہ اراکین کی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ تبدیلی لانے سے پہلے اس ضمن میں کئی پہلوؤں کو زیر نظر رکھنا ہوگا۔
بھارت میں پارلیمانی مباحثوں کے معیار کے بارے میں ہر کوئی واقف ہے۔بعض ممبران پارلیمنٹ میں حاضر ہی نہیں ہوتے ہیں۔ایسی بھی مثالیں ہیں ، جب پارلیمنٹ میں کم از کم مطلوبہ ممبران کی تعداد بھی موجود نہیں تھی اور اس وجہ سے ایوان کی کارروائی رُک گئی۔مٹھی بھر ممبران ہی پارلیمانی سیشن میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔
بیشتر ممبران اجلاس کے محدود وقت کی وجہ سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں۔سیاسی جماعتیں اپنے ممبران کو اظہارِ رائے کی آزادی کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں کثیر جہتی مباحثے نہیں ہو پاتے ہیں۔
منتخب نمائندگان کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔وہ مباحثوں میں شرکت کرنے کے بجائے اپنے کام کی طرف ہی متوجہ رہتے ہیں۔اِن وجوہات کی بنا پر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں ممبران کی تعداد بڑھانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔پارلیمنٹ کی کارکردگی کا دارو مدار اسکے ممبران کے طرز عمل اور حکومت کی جانب سے اجلاس کو منعقد کرنے کی ذمہ داری نبھانے کے طریقے پر ہوتا ہے۔
کیا لوک سبھا کو وسعت دینے کی ضرورت ہے؟
لوک سبھا کا بنیادی کام قوانین سازی ہے ۔ پارلیمنٹ مرکز اور ریاستوں سے متعلق تمام معاملات پربل پاس کرتا ہے۔لیکن ہمارے یہاں پارلیمنٹ کا کام اور بھی زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ ہمارے ممبران پارلیمنٹ مرکزی افسران کے ساتھ مختلف پروگراموں اور اسکیموں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اس لیے رائے دہندگان کی آبادی کے لحاظ سے منتخب ممبران کی تعداد کافی اہمیت کی حامل ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں ہمیشہ اجلاس میں رکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔اس صورتحال میں ممبران کی تعدا یک ہزار تک بڑھانے کے نتیجے میں زیادہ ادھم مچ جائے گی ۔پانچ سو ممبران میں سے چند ایک ہی اجلاس کے دوران ایک دوسرے کے بحث و مباحثے کو غور سے سنتے ہیں۔
واک آؤٹ کرنا، احتجاج کرنا اور اجلاس میں خلل ڈالنا معمول بن گیا ہے۔ان ہی وجوہات کی بنا پر ناقدین پارلیمنٹ ممبران کی تعداد بڑھانے کی تجویز کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔تاہم پارلیمنٹ کو وسعت دینے کی حمایت کرنے والوں کے پاس بھی اپنے موثر دلائل ہیں۔
ممبران پارلیمنٹ اپنا زیادہ تر وقت اپنے حلقہ ہائے انتخابات میں مختلف سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔وہ اپنے حلقہ انتخابات میں درپیش مشکلات کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کے لیے متعلقہ افسران کے ساتھ میٹنگیں وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔
حلقہ ہائے انتخابات کے مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے کے لیے ہر منتخب ممبر کے حصے کی آبادی کی شرح کم ہونی چاہیے۔قوانین میں ترمیم کرنے اور اصلاحات کرنے کے نتیجے میں ممبران کی تعدا کو آسانی سے ایک ہزار یا اس سے زیادہ کیا جاسکتا ہے۔
بھارتی پارلیمانی نظام میں پارلیمانی کمیٹیاں قائم کرنے کا رواج ایک اچھی بات ہے۔ یہ کمیٹیاں اپنے آپ میں ایک چھوٹا پارلیمنٹ ہوتی ہیں۔ اس میں دونوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبران شامل ہوتے ہیں۔ان میں ہر پارٹی سے وابستہ ممبران شامل ہوتے ہیں۔ان کمیٹیوں میں ممبران کی کم تعداد ہونے کی وجہ سے یہ ماہرین سے آراء حاصل کرتے ہیں اور یہ ممبران عوامی نظروں سے بھی اوجھل رہتے ہیں۔اس وجہ سے یہ کمیٹیاں زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہیں۔
ایوان بالا اور ایوان زریں میں ممبران کی تعداد بڑھاتے ہوئے انتخابی فریم ورک کوبھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔اس وقت رائج انتخابی نظام میں رائے دہندگان کی شرح اور نشستوں کی تعداد کا کوئی تال میل نہیں ہے۔جب کہ بہت عرصے سے متناسب نمائندگی کے نظام کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ہر طرح کے نظام میں دونوں خوبیاں اور خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ کو وسعت دیتے وقت درمیانی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔
پانچ سو نشستوں کا انتخاب موجودہ رائج طریقے سے ہی کیا جاسکتا ہے جبکہ باقی ماندہ نشستوں کو متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت پُر کی جاسکتی ہے۔ اس طرح سے جمہوری اقدار کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔
رائے دہندگان اور نشستوں کی تعداد میں عدم توازن کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے مختلف حصوں میں نشستوں کی تقسیم کا نظام بھی ٹھیک نہیں ۔جس کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے درمیان عدم مساوات پیدا ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی بھارت میں محض 130پارلیمانی نشستیں ہیں اور اس وجہ سے ملکی سیاست میں شمالی بھارت کی برتری دیکھنے کو ملتی ہے۔
موجودہ لوک سبھا نشستوں کی تعدا د کا فیصلہ سنہ 1971 کی مردم شماری کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ فائنانس کمیشن بھی اسی تعداد کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں۔14ویں فائنانس کمیشن نے پہلی بار سنہ 2011کی مردم شماری کی مطابق آبادی کو ملحوظ نظر رکھا ہے۔
فائنانشل کمیشن آئینی اختیارات کا حامل ادارہ ہے ، جو مرکزی سرکار اور ریاستوں کے درمیان مالی معاملات کو طے کرتا ہے۔ سنہ 1971 کے بعد ریاستوں نے آبادی پر کنٹرول کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا شروع کئے ۔چونکہ فنڈس کو مہیا کرنے میں آبادی کو ملحوظ نظر رکھنا بہت ضروری ہے ، اس لیے فائنانس کمیشن ریاستوں کے ساتھ کسی ناانصافی کے امکان کو دور کرنے کے لیے سنہ 1971 کی مردم شماری کو مدنظر رکھتے ہیں۔
لیکن 15ویں مالی کمیشن نے سنہ 2011 کی مردم شماری کو بنیاد بناتے ہوئے اپنا کام کاج کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آندھرا پردیش ، تلنگانہ اور دیگر جنوبی ریاستوں پر اثرات مرتب ہوئے ۔ اگرمستقبل میں لوک سبھا کو وسعت دینے کی منظوری مل جاتی ہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ سنہ 2011 کی مردم شماری کے حوالے سے آبادی کی شرح کو ملحوظ نظر رکھا جائے گا۔اوراگر ایساہوا تو بھارت کی جنوبی ریاستوں کو لوک سبھا میں کم نمائندگی ملے گی ۔اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے موجودہ ریاستوں کو تقسیم کیاجاسکتا ہے اور ان کی نئی حد بندیاں کی جاسکتی ہیں۔اس کے نتیجے میں سیاسی ردعمل دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
اس مشکل سے نمٹنے کا حل یہ ہے کہ شمالی ریاستوں کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے ۔اس خدشے کا وسیع پیمانے پر اظہار کیا جارہا ہے کہ لوک سبھا میں وسعت دینے کی کوشش کے پس پردہ یہی مقاصد کارفرما ہیں۔
اگر پارلیمنٹ کو وسعت دیتے ہوئے سنہ 2011 کی مردم شماری کو ملحوظ نظر رکھا جائے تو اس کے نتیجے میں جنوبی ریاستوں کے ممبران کی تعداد کم نہیں ہوگی بلکہ مجموعی طور پر سیاسی نمائندگی کی شرح ضرور کم ہوگی ۔لوک سبھا کا حجم بڑھانے کے بارے میں متضاد آراء سامنے آرہی ہیں۔اس لیے ایسا کرتے ہوئے سود مند اور غیر سود مند پہلوؤں پر خاص توجہ دینی ہوگی ۔ لوک سبھا کو وسعت دینے کے اصل مقصد کو واضح کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں کوئی بھی اقدام کرنے سے قبل قوم کے مختلف طبقات کو اعتماد میں لینے اور اس پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔