اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

خصوصی رپورٹ: شکیل بدایونی، بے مثال شاعر، لازوال نغمہ نگار

محبت ہم نے مانا کہ زندگی برباد کرتی ہے / یہ کیا کم ہے کہ مر جانے پہ دنیا یاد کرتی ہے۔ یہ شعر شکیل بدایونی کی پوری حیاتِ ادب کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔

شکیل بدایونی اوراُن کی فلمی نغمہ نگاری
شکیل بدایونی اوراُن کی فلمی نغمہ نگاری

By

Published : Aug 3, 2020, 6:08 PM IST

اُنہوں نے اپنی پوری زندگی ادب کے لئے وقف کر دی تھی۔ تین اگست کا دن اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ اسی دن سنہ 1916ء کو ضلع بدایوں میں شکیل بدایوںی کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہیں سے چل کر شکیل صاحب، شکیل بدایوں کے نام سے بین الاقوانی سطح پر مقبول ہوئے۔

شکیل بدایونی اوراُن کی فلمی نغمہ نگاری

شکیل بدایونی اردو ادب کا ایک ایسا نام، جس کے نغمے آج بھی لوگوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی پوری زندگی اردو ادب کے نام وقف کر دی۔ اب سے تقریباً ایک صدی قبل 3 اگست 1916ء کو بریلی ڈویژن کے ضلع بدایوں کی تنگ اور تاریک گلیوں میں شکیل بدایونی کی پیدائش ہوئی تھی۔

اُنہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ انٹر کالج میں مکمل کرنے کے بعد سنہ 1942ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اور کچھ روز دہلی میں ملازمت بھی کی۔

لیکن منزل ان کا کہیں اور انتظار کر رہی تھی۔ اُنہوں نے کچھ ہی ماہ بعد ممبئی کا رخ کیا۔ شکیل بدایونی نے سنہ 1947ء میں فلم 'درد' سے اپنی فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔

'افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا

آنکھوں میں رنگ بھر کے تیرے انتظار کا'

سنہ 1947ء میں شکیل بدایونی نے یہ نغمہ درد فلم کے لئے لکھا۔ یہ نغمہ بھارت کے دو حصّوں میں تقسیم ہونے کی عکّاسی کرتا ہے۔

فلم درد سے اپنے فلمی سفر کی شروعات کرنے والے شکیل صاحب نے میلا، دیدار، بیجو باورا، چودھویں کا چاند، مغلِ اعظم، مدر انڈیا، گنگا جمنا، بیس سال بعد، لیڈر، دو بدن، سنگھرش، سن آف انڈیا، رام اور شیام جیسی ہٹ فلموں کے نغمے لکھے اور اپنے نغموں کے ذریعے اپنے مدّاحوں اور شائقین کے دلوں پر کئی دہائیوں تک حکومت کی ہے۔

شکیل صاحب نے کل ملاکر 108 فلموں کے لیے نغمے لکھے۔ اُنہوں اپنے نغموں، غزلوں اور نظموں کے ذریعے اردو شاعری کو اتنا آسان بنا دیا کہ اُن کے لکھے نغمے، غزل اور نظم آج بھی گھر گھر اپنا خاص مقام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

نغمہ ہو غزل ہو، بھجن ہو یا پھر بھوجپوری اور اودھی زبان۔ شکیل صاحب کو اپنے قلم پر ایسی مہارت حاصل تھی کہ جو بھی لکھ دیا، وہ ہٹ ہو گیا۔

'نین لڑ جئی ہیں تو منوا ما کسک ہوئی وے کری'

اس نغمے میں شکیل صاحب نے اودھی زبان کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔

اسی طرح شکیل صاحب نے بھجن کو بھی اپنے خاص اسلوب میں لکھا ہے۔

'من تڑپت ہری درشن کو آج

بھگوان کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے'

یا پھر 'انصاف کی ڈگر پہ

بچوں دکھاؤ چلکے،

یہ دیش ہے تمہارا،

نیتا تم ہی ہو کل کے'

یا پھر ”ننہا، مُننا راہی ہوں،

دیش کا سپاہی ہوں،

بولو میری سنگ،

جے ہند “

نغمے کے علاوہ فلم لیڈر کا وہ نغمہ

”اپنی آزادی کو ہم ہرگز بھولا سکتے نہیں،

سر کٹا سکتے ہیں، لیکن سر جھکا سکتے نہیں“

حب الوطنی کے رنگ میں لبریز یادگار نغمے بھی شکیل صاحب کی قلم سے نکلے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شکیل بدایوںی نے وطن پرستی اور گنگا جمنی تہذیب کی جو مثال پیش کی ہے، وہ کہیں دیگر شخصیات میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔

اُن کے مداحوں کی زبان، کردار اور اخلاق میں آج بھی اُن کے نغموں، غزلوں اور نظموں کی مخملی آواز سنائی دیتی ہے۔

فلم 'چودھویں کا چاند' میں ایک نغمہ تھا

چودھویں کا چاند ہو، یا آفتاب ہو،

جو بھی تم خدا کی قسم، لاجواب ہو

اس نغمے کے لیئے شکیل بدایونی کو سنہ 1960ء میں پہلے فلم فیئر ایوارڈ کے اعزاز سے نوازہ گیا۔

مزید پڑھیں:

جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو، شکیل بدایونی کی یوم پیدائش

اس کے بعد سنہ 1961ء میں فلم بیس سال بعد اور سنہ 1962ء میں فلم گھرانا کے نغمہ 'حُسن والے تیرا جواب نہیں' کے لیئے بھی فلم فیئر اوارڈ ملا۔

مسلسل تین برس میں تین بار فلم فیئر ایوارڈز حاصل کرنے والے شکیل بدایونی واحد ایسے نغمہ نگار ہوئے اور یہ رکارڈ آج بھی قائم ہےکہ اُنہوں نے آٹھ فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے،یہی وجہ ہے کہ اردو ادب ہو یا فلمی دنیا، شکیل بدایونی صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details