اُنہوں نے اپنی پوری زندگی ادب کے لئے وقف کر دی تھی۔ تین اگست کا دن اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ اسی دن سنہ 1916ء کو ضلع بدایوں میں شکیل بدایوںی کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہیں سے چل کر شکیل صاحب، شکیل بدایوں کے نام سے بین الاقوانی سطح پر مقبول ہوئے۔
شکیل بدایونی اردو ادب کا ایک ایسا نام، جس کے نغمے آج بھی لوگوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی پوری زندگی اردو ادب کے نام وقف کر دی۔ اب سے تقریباً ایک صدی قبل 3 اگست 1916ء کو بریلی ڈویژن کے ضلع بدایوں کی تنگ اور تاریک گلیوں میں شکیل بدایونی کی پیدائش ہوئی تھی۔
اُنہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ انٹر کالج میں مکمل کرنے کے بعد سنہ 1942ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اور کچھ روز دہلی میں ملازمت بھی کی۔
لیکن منزل ان کا کہیں اور انتظار کر رہی تھی۔ اُنہوں نے کچھ ہی ماہ بعد ممبئی کا رخ کیا۔ شکیل بدایونی نے سنہ 1947ء میں فلم 'درد' سے اپنی فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔
'افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا
آنکھوں میں رنگ بھر کے تیرے انتظار کا'
سنہ 1947ء میں شکیل بدایونی نے یہ نغمہ درد فلم کے لئے لکھا۔ یہ نغمہ بھارت کے دو حصّوں میں تقسیم ہونے کی عکّاسی کرتا ہے۔
فلم درد سے اپنے فلمی سفر کی شروعات کرنے والے شکیل صاحب نے میلا، دیدار، بیجو باورا، چودھویں کا چاند، مغلِ اعظم، مدر انڈیا، گنگا جمنا، بیس سال بعد، لیڈر، دو بدن، سنگھرش، سن آف انڈیا، رام اور شیام جیسی ہٹ فلموں کے نغمے لکھے اور اپنے نغموں کے ذریعے اپنے مدّاحوں اور شائقین کے دلوں پر کئی دہائیوں تک حکومت کی ہے۔
شکیل صاحب نے کل ملاکر 108 فلموں کے لیے نغمے لکھے۔ اُنہوں اپنے نغموں، غزلوں اور نظموں کے ذریعے اردو شاعری کو اتنا آسان بنا دیا کہ اُن کے لکھے نغمے، غزل اور نظم آج بھی گھر گھر اپنا خاص مقام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
نغمہ ہو غزل ہو، بھجن ہو یا پھر بھوجپوری اور اودھی زبان۔ شکیل صاحب کو اپنے قلم پر ایسی مہارت حاصل تھی کہ جو بھی لکھ دیا، وہ ہٹ ہو گیا۔