اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'فائرنگ کے واقعات اور دھمکی سے خوفزدہ نہیں شاہین باغ کی خواتین'

شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں جاری مظاہرہ آج 51ویں دن میں داخل ہوگیا ہے مگر دھمکیوں،شاہین باغ اور جامعہ میں فائرنگ کے بعد بھی خواتین کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ وہ شاہین باغ مظاہرے میں ڈٹی ہوئی ہیں۔

'Shaheen Bagh women not afraid of shootings and threats'
'فائرنگ کے واقعات اور دھمکی سے خوفزدہ نہیں شاہین باغ کی خواتین'

By

Published : Feb 3, 2020, 7:58 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 1:23 AM IST

خاتون مظاہرین نے کہا کہ اس طرح کی حرکت سے ہم ڈرنے والی نہیں ہیں۔ ہم خواتین ایسے عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی جب تک اس قانون کو واپس نہیں لیا جاتا اس وقت تک دھرنے سے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار دنوں سے جامعہ اورشاہین باغ میں گزشتہ چار دنوں میں فائرنگ کے چار واقعات ہوچکے ہیں۔ فسطائی طاقتیں اس کے واقعات کوانجام دےکر ہمیں ڈرانا چاہتی ہیں لیکن ہم انہیں بتادینا چاہتے ہیں ہم لوگ خوف زدہ نہیں ہیں بلکہ ا س سے ہمارا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔

پیپلز آف ہوپ کے چیئرمین اور مظاہرہ میں شروع سے شریک ہونے والے رضوان احمد نے بتایا کہ جس طرح پولیس نے کل ہندو شدت پسند تنظیموں کے غنڈوں کو اس علاقے میں جانے کی اجازت دی اور وہ لوگ نعرے بازی کرتے ہوئے مظاہرہ گاہ میں جانے کی کوشش کی یہ بہت ہی شرمناک ہے۔


انہوں نے کہا کہ پولیس کوانہیں اس علاقے کی طرف جانے ہی نہیں دینا چاہیے تھا اور اگر وہ لوگ نہیں مان رہے تھے تو اسی طرح حراست میں لیا جانا چاہیے تھا جس طرح جے این یو اور دیگر مظاہرین کومظاہرہ کرنے سے پہلے حراست میں لے لیتی ہے۔

رضوان احمد نے کہا کہ جب ہم لوگ مظاہرہ کرتے ہیں یا مارچ نکالتے ہیں تو پولیس کی ہم پر کڑی نظر ہوتی ہے لیکن جب یہ شدت پسندتنظیم کے افراد آتے ہیں تو پولیس انہیں آنے دیتی ہے۔


انہوں نے کہا کہ جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کے ساتھ ایک نوجوان پستول لہراتا ہوا آیا اور فائرنگ کی اور پولیس خاموش تماشہ دیکھتی رہی بلکہ پولیس والے تو ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے وہ مجرم نہ ہوکر پولیس کا ہی آدمی ہو۔ پولیس کو اسے فوراً دبوچنا چاہیے تھا اور اسے فائرنگ کرنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔

ایک دیگر خاتون مظاہرین نے کہا کہ پولیس اور حکومت ہمارے عزم، حوصلوں اور صبر کا امتحان نہ لے۔ ہم ہر امتحان دینے کے لئے تیار ہیں اور ملک کی حفاظت اور آئین کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔


انہوں نے کہاکہ قربانی دینے کی ہماری تاریخ رہی ہے، ہم پیٹھ پھیرکر بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اگر حکومت اور پولیس یہ سوچتی ہے کہ ہم فائرنگ سے اپنامظاہرہ ختم کردیں گے یہ ان کی خام خیالی ہے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت کی طرف سے کئی ہتھکنڈے اپنائے گئے مگر اسے ناکامی ہاتھ لگی۔ اس سے فرقہ پرست عناصر پوری طرح بوکھلا گئے ہیں۔ اس لئے وہ کبھی فائرنگ، کبھی دھمکی، کبھی حملے کرنے کی تو کبھی اجاڑنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان چیزوں نے ہمارے عزم کو اور بھی مضبوط کردیا ہے اور ہمارے دلوں سے خوف نکال دیا ہے۔

اسی کے ساتھ ہندوشدت پسندوں کے شاہین باغ آنے کی خبر سن کر سکھوں کا ایک جتھہ شاہین باغ پہنچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہنوں کی حفاظت کے لیے آئے ہیں اور کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر ان کو ان بہنوں پر حملہ کرنا ہے تو پہلے ہم سے گزرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ مزید سکھ بسوں میں بھر کر یہاں آرہے ہیں اور وہ لوگ شاہین باغ خاتون مظاہرین کی حفاظت کریں گے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ چار دنوں کے دوران دو بار فائرنگ کا واقعہ ہوچکا ہے۔ فائرنگ کا دوسرا بارہ بجے کے آس پاس کا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری 24 گھنٹے احتجاج کررہے ہیں۔

گیٹ نمبر سات پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس بربریت کے بعد سے 15 دسمبر سے احتجاج جاری ہے۔ پہلے یہ احتجاج چند گھنٹوں کا ہوتا تھا لیکن حکومت پر کوئی اثر نہ پڑنے کی وجہ سے اسے 24 گھنٹے کا کردیا گیا۔

اس سے قبل 30 جنوری کو مہاتما گاندھی کے یوم شہادت کے موقع پر طلبہ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ سے راج گھاٹ تک مارچ نکالنا چاہ رہے تھے تو اس وقت ایک نوجوان نے پولیس کے سامنے فائرنگ کردی تھی۔

رات میں فائرنگ کے واقعہ کے خلاف جامعہ کی طالبات اپنے ہوسٹل سے نکل کر زبردست مظاہرہ کیا اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا کہ ہم کسی طرح کی غندہ گردی اور ظلم برداشت نہیں کریں گے۔ لڑکیوں کا رات کے دو بجے کے قریب ہوسٹلوں سے باہر آکر نعرہ لگانا یہ غیر معمولی بات ہے۔

اس کے علاوہ دہلی میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف خاتون مظاہرین کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے اور دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور اس فہرست میں ہر روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے، نظام الدین میں بھی خواتین کا مظاہرہ جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے۔

شاہین باغ کے بعد خوریجی خواتین مظاہرین کا اہم مقام ہے۔ خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ خوریجی خواتین کا مظاہرہ ہر روز خاص ہورہا ہے۔

گزشتہ رات مہاراشٹر کے سابق آئی پی ایس افسر عبدالرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں خواتین کو سلام کرتا ہوں کہ آپ نے اس سیاہ قانون کے خلاف محاذ سنبھالا ہے۔ آپ کی جدوجہد نے ملک میں سیکڑوں شاہین باغ بنادیا ہے۔

دہلی میں اس وقت حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر‘ سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ، بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک، بیری والا باغ، نظام الدین، جامع مسجد سمیت ملک کے تقریباً سیکڑوں مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے اور یہاں شدت سے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بہار کی خواتین درجنوں جگہ پر مظاہرہ کر رہی ہیں۔

گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29 دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ، سیوان، چھپرہ، بہار شریف، جہان آباد، گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، چمپارن، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپورسب ڈویژن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔

شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، آرام پارک خوریجی، حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک، نورالہی، سیلم پور فروٹ مارکیٹ، جامع مسجد، ترکمان گیٹ، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، شا،رانی باغ سمری دہلی۔

بختیارپورضلع سہرسہ بہار‘سبزی باغ پٹنہ بہار، ہارون نگر،پٹنہ’ شانتی باغی گیا بہار، مظفرپور بہار، ارریہ سیمانچل بہار، بیگوسرائے بہار، پکڑی برواں نوادہ بہار، مزار چوک، چوڑی پٹی کشن گنج‘ بہار، مگلا کھار‘ انصارنگر نوادہ بہار، چمپارن، مدھوبنی بہار،سیتامڑھی بہار، سمستی پور، تاج پور، سیوان بہار، گوپالگنج بہار، کلکٹریٹ بیتیا مغربی چمپارن بہار، ہردیا چوک دیوراج بہار، نرکٹیاگنج بہار، رکسول بہار۔

دھولیہ مہاراشٹر، ناندیڑ مہاراشٹر، ہنگولی مہاراشٹر، پرمانی مہاراشٹر، آکولہ مہاراشٹر، پوسد مہاراشٹر، کونڈوامہاراشٹر، پونہ مہاراشٹر ستیہ نند ہاسپٹل مہاراشٹر۔


سرکس پارک کلکتہ، قاضی نذرل باغ مغربی بنگال، اسلام پور مغربی بنگال، اسلامیہ میدان الہ آبادیوپی، روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی، محمد علی پارک چمن گنج کانپور یوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان، کوٹہ راجستھان،اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش، جامع مسجد گراونڈ اندور،مانک باغ اندور، احمد آباد گجرات، منگلور کرناٹک، ہریانہ کے میوات اور یمنانگر اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی دھرنا جاری ہے۔


اسی کے ساتھ جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو، لوہر دگا، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔

اس کے علاوہ ملک کے مختلف مقامات پرخواتین کا مظاہرہ ہورہا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شامل ہورہی ہیں۔ اس مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اس قانون سے سب سے زیادہ نقصان قبائلی سماج کا ہوگا۔

Last Updated : Feb 29, 2020, 1:23 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details