گاندھیائی سوچ کے مستقبل کے بارے میں تشار گاندھی نے کہا کہ گاندھی جی کا نظریہ انسانیت کے سب سے پائیدار نظریات میں سے ایک ہے۔
'گاندھیائی سوچ ہمیشہ زندہ رہے گی' انہوں نے کہا : 'ہمارے غیر مستحکم طرز زندگی کے اثرات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ گاندھیائی نظریہ کے علاوہ کسی اور نظریے میں پائیداری نہیں ہے۔انکا نظریہ ابھی تک چلتا آرہا ہے اور یہ لازوال بھی ثابت ہوا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ گاندھیائی سوچ کو عالمی سطح پر قبول کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ گاندھیائی نظریہ یہ ہے کہ نطریات کے اختلافات کے باوجود ہم قدرت کے عطا کردہ تحفوں کا غلط استعمال نہ کریں اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔
موجودہ طرز زندگی کو برداشت کی صفت سے عاری اور تشدد پر فوری طور آمادہ قرار دیتے ہوئے تشار گاندھی نے کہا کہ مہاتما گاندھی ایسی صورتحال پر فوری ردعمل ظاہر کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
انہوں نے کہا کہ قتل کرنا آج کل ایک عادت بن گیی ہے اور اسے قبول بھی کیا جارہا ہے۔جو لوگ اس میں ملوث ہیں وہ اسے اپنی زندگی کے معمول کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ خاموش رہ کر اسے قبول کر رہے ہیں جو کہ زیادہ خطرناک ہے۔
تشار کا کہنا ہے کہ مہاتما گاندھی ایک ایسے ڈاکٹر تھے جو درد کی جڑ تک جاتے تھے بجائے اسکے کہ فوری مداوے کیلئے کچھ دوا دارو تجویز کرتے۔
’’باپو نے ہمارے سماج مین پنپنے والی بیماریون کو پہلے ہی بھانپ لیا ہوتا اس سے قبل کہ وہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتے‘‘۔
عالمی سطح پر مقبول گاندھیائی سوچ کے بارے میں تشار نے کہا کہ دوسرے تمام نظریات کو آزمایا جاچکا ہے لیکن گاندھیائی نظریے میں ایسی کشش ہے جو کسی اور میں نہیں ہے۔
حالانکہ تشار کا کہنا ہے کہ سخت گیر سوچ رکھنے والے لوگ گاندھیائی افکار و نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ جلدبازی میں رہتے ہیں۔
گاندھائی سوچ کو فطری قرار دیتے ہوئے تشار نے کہا؛ 'ہرنظریہ ایک مختصر مدت کے بعد معدوم ہوجاتا ہے لیکن ہر بار گاندھیائی نظریہ کو اپنانے کی ضرورت اتنی ہی اجاگر ہوجاتی ہے ۔ آزاد خیالی پائیدار ہے لیکن انتہا پسندی نہیں۔'
تشار نے وزیر اعظم نریندر مودی کے 'سوچھ بھارت ابھیان' کو گاندھیائی نظریہ کا محض ایک جز قراد دیا ۔ انہوں نے کہا کہ من کی صفائی کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صفائی لازمی تو ہے لیکن روح کی صفائی اور آپسی بھائی چارہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کتنی گندگی صاف کررہے ہوں، جب تک آپ کا دماغ غلیظ ہے آپ مزید گندگی پیدا کر رہے ہیں۔'
سخت گیر سوچ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں تشار نے کہا کہ وہ آج لوگوں کو قتل اور نفرت کے نظریہ کی پیروی کرتے ہوئے دیکھ کر حیران نہیں ہوتے ۔ گاندھی نے آج کی صورتحال کو بخار سے تشبیہ دی ہے جو معمول کی علامت نہیں ہے۔
اس متعلق تشار نے مزیر کہا؛ 'فطرت کے لحاظ سے انسان امن پسند ہے اور محفوظ زندگی گزار نا چاہتا ہے۔ سخت گیر ہونا انسانی فطرت کے خلاف ہے، یہ بخار کی طرح ہے جس کا علاج ہو سکتا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا؛ 'یہ بات بالکل واضح ہے کہ بھارت میں آج گوڈسے کو ہیرو کی طرح پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن ایسے موجودہ دور میں انسان میں ہمت ہونی چاہیے کہ وہ گاندھی جی کے اصولوں کی خصوصیات کو ظاہر کر سکے۔'
تشار گاندھی کا ماننا ہے کہ ہمیں آنے والی نسل کو بچانے پر کام کرنا چاہیے جب کہ موجودہ نسل قبل از وقت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا؛ ' ہر کوئی فرد پائیدار خیال کی تلاش میں ہے کیوںکہ نفرت اور قتل و غارت گری ، صرف انسانیت کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اس سے ماحول اور قدرتی مناظر کو بھی خطرہ ہے۔ ان تمام برائیوں کے باوجود بھی بہتر وقت کی امید کی جاسکتی ہے۔'
گاندھی جی کی وفات کے بعد بھی ان کی سوچ نے دینا بھر کی تحریکوں کو متاثر کیا۔
تشار نے کہا کہ ایک خیال کو ابھرنے کے لیے ایندھن کی ضرورت نہیں ہے،ا سے صرف سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گاندھیائی سوچ اور نظریے کو لوگوں پر تھوپا نہیں جا سکتا، اس کو دوا کے طور پر نہیں پلایا جاسکتا ہے۔ اس خیال اور نظریے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اسے تبلیغ کا موضوع بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
تشار گاندھی نے کہا کہ شدت پسندانہ نظریات کے حامل لوگ، جنہوں نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا، یہ جان لیں کہ ایک شخص کو قتل کرنے کے باوجود بھی انکے نظریے کو کچلا نہیں جاسکا۔ نظریے کو حاشیے پر رسید نہیں کیا جاسکتا۔