کورونا وائرس نے پوری دُنیا میں صحت عامہ کا بحران پیدا کردیا ہے۔ اب تک بیس لاکھ لوگ اس کی وبا کی ذد میں آچکے ہیں اور تیس لاکھ لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ طبی عملہ جو وبا کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کی حیثیت سے کام کررہا ہے، وہ بھی اس وائرس سے متاثر ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک، جن میں دفاعی شعبے کی طرح طبی شعبے کے لئے یکساں رقومات مختص رکھی جاتی ہیں وہ ممالک بھی اس وبا کی تباہی کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ بھارت جیسے ممالک کو درپیش مشکلات ناقابل بیان ہیں جن میں طبی شعبے کے لئے محدود فنڈز ہیں۔ بھارت عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کی اُن ہدایات پر عمل در آمد کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے وسیع پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ کرائے جائیں۔ بھارت میں تشخیصی کٹس، اسپتالوں کے بستروں، طبی آلات اور دیگر سپلائی کی شدید قلت ہے۔ ایسے حالات میں لاک ڈاون اور خود ساختہ قرنطینہ ہی اس وبا سے نمٹنے کا متبادل ہوسکتا ہے۔
بھارت میں پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ (پی پی ای) یعنی معالجین کو وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والے آلات کی بھی قلت ہے۔ چھ اپریل تک یہاں صرف دس ہزار سے بھی کم پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹس میسر تھے۔ ان میں وہ پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹس بھی شامل تھے، جو چین نے فراہم کئے ہیں۔اب چین کی جانب سے مزید پچاس لاکھ پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹس اور پندرہ لاکھ ٹیسٹنگ کٹس موصول ہونے والے ہیں۔ہمارے ملک کی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں لوگوں کی تشخیص یعنی ٹیسٹ کرنے کی شرح انتہائی کم ہے۔
اسرائیل میں لوگوں کی ٹیسٹنگ کئے جانے کی شرح فی دس لاکھ آبادی میں اٹھارہ ہزار چھ سو ہے۔ جبکہ اٹلی اور آسٹریلیا میں یہ شرح فی دس لاکھ میں سے بالترتیب سترہ ہزار تین سو ستائس اور چودہ ہزار تین سو ہے۔ جبکہ جنوبی کوریا میں ٹیسٹنگ کی شرح فی دس لاکھ لوگوں میں دس ہزار چھیالیس ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بھارت میں ٹیسٹنگ کی شرح فی دس لاکھ میں محض ایک سو اکسٹھ ہے۔ اگر چین سے منگائے گئے ٹیسٹنگ کٹس بھی میسر ہوجائیں گے تب بھی بھارت میں متاثرین کی تعداد میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر یہ کٹس ناکافی ہوں گے۔ ان پریشان کن حالات میں جب یہ طبی آلات بنانے والی بھارتی کمپنیوں کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ کمپنیاں اپنی صلاحیت کے مقابلے میں آدھا کام بھی نہیں کرپاتی ہیں۔ اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔