سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایک مہینے کے اندر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے استعمال کیے جانے والے سینیٹائزر ٹنل، جراثیم کش محلول اور الٹرا وائلٹ شعاعوں کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے لیے ضروری ہدایت جاری کریں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 اکتوبر کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قائم کیے جانے والے سینیٹائزر ٹنل کے استعمال، تنصیب، پروڈکشن اور اشتہار پر فوری پابندی عائد کرنے والی عرضی پر ایڈیشنل ایفی ڈیوٹ داخل کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو 10 دن کا وقت دیا تھا۔
جسٹس اشوک بھوشن کی سربراہی میں بینچ نے مرکز کو اضافہ حلف نامہ داخل کرنے کے لئے 10 دن کی مہلت دی تھی اور اکتوبر کے آخری ہفتے میں اس معاملے کی سماعت ملتوی کر دی تھی۔
بینچ نے کہا کہ 'سالیسیٹر جنرل کی جانب سے اضافی دستاویزات جمع کروانے کے لئے درخواست دی گئی ہے۔'
اس سے قبل بینچ نے اس معاملے کے سلسلے میں وزارت صحت و خاندانی بہبود، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ، وزارت زراعت اور کسانوں کی بہبود سے جواب طلب کیا تھا۔
لاء کے طالب علم گرسمرن سنگھ نرولا نے یہ عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی تھی۔ اس عرضی میں کہا گیا تھا کہ انسانوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے حوالے سے قائم کیے جانے والے سینیٹائزر ٹنل کی تنصیب، استعمال، اشتہار پر پابندی عائد کی جائے۔
عرضی گزار کا کہنا ہے کہ سینیٹائزر ٹنل کا استعمال کورونا وائرس سے بچاو میں کارگر نہیں ہے اور یہ الٹرا وائلٹ کرنوں کے رابطہ میں آنے پر صحت سے متعلق مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کووڈ 19 کی روک تھام کی آڑ میں بہت سینیٹائزیشن اور ڈس انفیکشن آلات سامنے آئے ہیں، جو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ان آلات میں جراثیم سے پاک کرنے والے سرنگ شامل ہیں جس میں اس بات کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان سرنگوں سے گزرنے پر چھڑکاؤ کیے جانے والی دوائیں انسانوں کو جراثیم سے پاک کریں گی۔
عرضی میں اس بات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور دنیا بھر کے دیگر سائنسی اداروں نے ان سرنگوں کے مضر اور خطرناک اثرات کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ ساتھ میں ڈبلیو ایچ او اور دنیا بھر کے دیگر ماہرین صحت نے کہا ہے کہ اس طرح کے سینیٹائزر ٹنل کے ناجائز اور غلط استعمال سے انسانوں پر سنگین جسمانی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔