اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

سعودی عرب: خواتین کو مرد کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت

سعودی عرب میں آئندہ ماہ 'سعودی گیمز' کا بین الاقوامی سپورٹس ایونٹ منعقد ہوگا، جس میں پہلی بار خواتین کو مرد کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

عرب: خواتین کو مرد کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت
عرب: خواتین کو مرد کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت

By

Published : Feb 27, 2020, 9:30 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 7:26 PM IST

سعودی عرب میں آئندہ ماہ 'سعودی گیمز' کا بین الاقوامی سپورٹس ایونٹ منعقد ہوگا، جس میں چھ ہزار سے زائد مرد و خواتین ایتھلیٹس شرکت کریں گے۔

سعودی عرب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پہلی بار مختلف کھیلوں کی خواتین کھلاڑیوں کو مرد کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت ہوگی، اس نوعیت کی بڑی تقریبات سے یہ قدامت پسند عرب ملک اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتا ہے۔

سعودی عرب میں آئندہ ماہ 'سعودی گیمز' کا بین الاقوامی سپورٹس ایونٹ منعقد ہوگا، جس میں پہلی بار خواتین کو مرد کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی جارہی ہے

دارالحکومت ریاض میں 23 مارچ سے سعودی گیمز کا آغاز ہونے جارہا ہے، جس میں چالیس سے زائد کھیلوں کے مقابلے یکم مارچ تک جاری رہیں گے۔

واضح رہے کہ سعودی گیمز میں تیراکی، تیر اندازی، ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن، اور باسکٹ بال کے مقابلوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی حصہ لیں گی۔

کھیلوں کے امور کے سعودی وزیر شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی نے سعودی گیمز کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ان کے لیے سعودی مملکت کی تاریخ میں کھیلوں کے سب سے بڑے ایونٹ کا اعلان کرنا باعث فخر ہے۔

سعودی عرب میں آئندہ ماہ 'سعودی گیمز' کا بین الاقوامی سپورٹس ایونٹ منعقد ہوگا، جس میں چھ ہزار سے زائد مرد و خواتین ایتھلیٹس شرکت کریں گے

انہوں نے کہا کہ سعودی گیمز میں فاتح ایتھلیٹس کو سونے کے تمغے کے ساتھ ساتھ ایک ملین سعودی ریال کے انعام سے بھی نوازا جائے گا۔

سعودی حکام ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے سلسلے میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ حکام بڑے پیمانے پر کھیلوں اور تفریحی تقریبات منعقد کر رہے ہیں تاکہ ملکی ساکھ کو بھی بہتر بنایا جاسکے۔

سعودی عرب میں رواں ماہ ہی پہلی بار خواتین نے غیر محرم مرد حضرات کے ساتھ تاش کے ایونٹ میں جہاں پہلی بار حصہ لیا تھا وہیں انہوں نے منجھے ہوئے مرد کھلاڑیوں کو شکست بھی دی تھی۔

سعودی اولمپک گیمز کا انعقاد دارالحکومت ریاض کے 18 مختلف مقامات پر کیا جائے گا اور خیال کیا جارہا ہے کہ کھیلوں کو دیکھنے کے لیے نوجوان خواتین کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند برس سے سعودی حکومت نے خواتین کو نمایاں آزادیاں دی ہیں اور اب وہاں خواتین کو جہاں ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے کی اجازت حاصل ہے، وہیں انہیں مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت بھی حاصل ہے۔

سعودی عرب میں اب جہاں خواتین ڈرائیونگ کرنے کے لیے آزاد ہیں، وہیں وہ اب غیر محرم مرد کے ساتھ ملازمت بھی کرسکتی ہیں، علاوہ ازیں انہیں سیاست میں بھی حصہ لینے کی اجازت حاصل ہے۔

واضح رہے سعودی بادشاہ شاہ سلمان نے حال ہی میں کھیلوں کی صنعت کی اقتصادی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علیٰحدہ وزارت کھیل قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

شہزادہ عبد العزیز کو وزارت کھیل کی نئی ذمہ داری اس لیے بھی سونپی گئی ہے، کیونکہ سعودی عرب ملک میں فٹ بال کی بڑی لیگ سے لے کر خواتین کی ریسلنگ تک کے اربوں ڈالر کے مقابلوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

سعودی عرب رواں ہفتے دنیا کے امیرترین گھوڑوں کی دوڑ کی میزبانی بھی کرے گا، اس کے علاوہ سعودی حکام نے رواں ہفتے خواتین کی فٹ بال لیگ کا بھی آغاز کیا ہے۔

سنہ 2018 سے پہلے سعودی خواتین کو فٹ بال سٹیڈیم میں بطور تماشائی داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر تنقید کی زد میں رہا ہے، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان ان تقریبات کو 'اسپورٹس واشنگ' قرار دے رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک حالیہ بیان کے مطابق گزشتہ چند ماہ سے سعودی حکام کھیلوں کی رنگا رنگ تقریبات کو تعلقات عامہ کے آلے کے طور پر استعمال کررہے ہیں، اور وہ اس کے ذریعے اپنے بین الاقوامی امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 7:26 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details